• عبادات >> ذبیحہ وقربانی

    سوال نمبر: 42684

    عنوان: قربانی کے مسائل

    سوال: ۱- ایک آدمی کے دو (۲) مکان ہیں ایک میں خود رہتا ہے اور ایک کرایہ پر دیا ہوا ہے . کرایہ ہی اس کا ذریعہ معاش ہے اس پہ کوئی قرضہ بھی نہیں ہے ، کرایہ دس ہزار ہے اور وہ گھر کے خرچوں میں استعمال ہوجاتا ہے اس کے پاس نہ سونا ہے نہ چاندی ہے اور نہ ہی اس کے پاس نقدی مال اور نہ ہی تجارت کا سامان ہے ۔ کیا اس آدمی پر قربانی واجب ہے ؟ ۲- الف : ایک آدمی کی مکیت میں ایک مکان ہے مکان کے نچلے والے حصّے میں خود رہتا ہے اور اوپر والا حصّہ کرایہ پر دیا ہوا ہے. اس کا الگ میٹر ، الگ راستہ جیسا کہ ہمارے یہاں پر عام دستور ہے کہ مالک مکان نیچے رہتا ہے اور اوپر والا حصّہ کرایہ پر دیا ہوتا ہے . کیا یہ اوپر والا مکان کا حصّہ حاجات اصلیہ سے زائد شمار ہوگا ؟ تو کیا اس آدمی پر قربانی واجب ہے ؟

    جواب نمبر: 42684

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی: 1335-1332/N=1/1434 (۱) سوال میں مذکور شخص کے لیے اگر کرایہ پر دیے ہوئے مکان کا کرایہ ہی گذر بسر کا ذریعہ ہے تو اس پر قربانی واجب نہ ہوگی کیونکہ اس صورت میں وہ مکان بھی حوائج اصلیہ میں داخل ہوگا، قال في مجمع الأنہر (کتاب الزکاة باب صدقة الفطر: ۱/۳۳۵، ط: دارالکتب العلمیة، بیروت، لبنان): ولو کانت لہ دور وحوانیت للغلة وہي لا تکفي عیالہ فہو من الفقراء علی قول محمد․․․ إھ اور بہشتی زیور (۳:۳۵)۔ (۲) اگر اس شخص کے لیے بھی اوپر والے حصہ کا کرایہ ہی گذر بسر کا ذریعہ ہے تو اس کے حق میں بھی یہ اوپر والا حصہ حوائج اصلیہ میں داخل ہوگا اور اس پر قربانی واجب نہ ہوگی (حوالہ بالا)۔ اور اگر گذر بسر کا ذریعہ کوئی اور ہے تو یہ حوائج اصلیہ میں شامل نہ ہوگا اور اس پر قربانی واجب ہوگی قال في الفتاوی الخانیة (علی الہندیة: ۱/۲۲۷، ط: مکتبة زکریا دیوبند): وإذا کان لہ دار لا یسکنہا ویوٴاجرہا أو لا یوٴاجرہا یعتبر قیمتہا في الغنی وکذا إذا سکنہا وفضل عن سکناہ شيء یعتبر فیہ قیمة الفاضل فی النصاب ویتعلق بہذا النصاب أحکام وجوب صدقة الفطر والأضحیة․․․ إھ ومثلہ في البزازیة (علی الہندیة: ۴:۱۰۶) ونقلہ في التاتارخانیة (۳:۴۵۴، ط: مکتبہ زکریا دیوبند) عن الخانیة وکذا في بہشتی زیور (۳/۳۴، ۳۵)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند