• متفرقات >> دیگر

    سوال نمبر: 68346

    عنوان: مدرسہ کھولا جائے یا کاروبار کیا جائے ؟

    سوال: واجب الاحترام قابل اکرام مفتیان عظام ..عرض یہ کہ بندہ کو دار العلوم سے فراعت کا شرف حاصل ہے ۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ والد محترم چاہتے ہیں کہ میں مدرسہ میں لگوں اور بندہ کاروبار کرنا چاہتا ہے ، والد صاحب کے کہنے کے مطابق بندہ نے علاقہ میں ایک ادارہ بھی کھولا تھالیکن بچند وجوہ بند ہوگیا،مزید یہ کہ اللہ نے مال ودولت سے نوازا ہے فراغت کے بعد بھائی اور بھابھی کی طرف سے کچھ باتیں رونما ہوئیں جن سے یہ پتہ چلا کہ ان کو میرا کاروبار میں اور گھر میں رہنا پسند نہیں بوجہ کہ میں مدرسہ میں تھا میں کچھ نہیں کیا، محنت بھائی نے کی اسلئے بھائی کا ہے والد صاحب مخلص ہیں انکا کہنا ہے کہ مدرسہ میں رہو، خرچہ میں دوں گا، بندہ کا خیال ہے کہ والد صاحب تو مخلص ہیں لیکن اسکے بعد؟ اب دریافت طلب امر یہ کہ اب میں کیا کروں؟ مدرسہ میں خدمت انجام دوں یا موجودہ تجارت میں لگوں؟ اگر تجارت میں لگوں تو والد صاحب کی نافرمانی تو نہ ہوگی؟ براے کرم رہنمائی فرمائیں۔نوازش ہوگی۔

    جواب نمبر: 68346

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 929-905/Sd=11/1437 آپ کے والدصاحب کی رائے مناسب ہے، عالم بننے کے بعد مدرسے میں پڑھانا بڑی سعادت اور فضیلت کی بات ہے، اس سے علم تازہ رہتا ہے، آپ خرچ کے مسئلے کی زیادہ فکر نہ کریں، اگر زندگی میں قناعت ہو گی، تو مدرسے میں خدمت انجام دیتے ہوئے ان شاء اللہ اطمینان اور سکون کے ساتھ زندگی گذرے گی، ہاں پڑھانے کے ساتھ اگر آپ تجارت کی بھی کوئی ایسی شکل بنالیں، جس سے پڑھنے پڑھانے کے کام میں خلل نہ ہو، تو یہ بہت بہتر ہے۔ والد صاحب جب کہ خود خرچ دینے کے لیے بھی تیار ہیں، تو اُن کی اجازت کے بغیر آپ کا مدرسہ چھوڑ کر تجارت کرنا شرعا درست نہیں ہے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند