• متفرقات >> دیگر

    سوال نمبر: 179807

    عنوان:

    کیا شوہر جبرََا بیوی کو فجر کی نماز کے لئے اٹھا سکتا ہے ؟

    سوال:

    کیا شوہر جبرََا بیوی کو فجر کی نماز کے لئے اٹھا سکتا ہے ؟

    جواب نمبر: 179807

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:29-12T/L=2/1442

     اگر بیوی فجر کے لیے بیدار نہ ہوتی ہو تو اس کو حکمت سے سمجھاکر بیدار کرنے کی کوشش کی جائے ،حدیث شریف میں ہے کہ اللہ ایسے شخص پر رحم فرماتے ہیں جو رات کو اٹھ کرتہجدکی نماز پڑھے اور اپنی بیوی کو اٹھائے ،اگر بیوی اٹھنے سے منع کرے تو اس کے چہرہ پر پانی کا چھینٹا مارے (جس کی وجہ سے وہ بیدار ہوکر تہجد ادا کرلے )اسی طرح ایسی عورت پر رحم کا معاملہ فرماتے ہیں جو خود رات کو بیدار ہوئے اور تہجد کی نماز ادا کرے اور شوہر کو بیدار کرے ،اگر شوہر بیدار نہ ہو تو اس کے چہرے پر پانی کا چھینٹا مارے (تاکہ وہ بھی اٹھ کر تہجد کی نماز پڑھ لے )اس لیے اٹھانے کے لیے ایسی ہی ترکیب کرنی چاہیے جس سے بیوی کو ناگواری نہ ہو اور وہ بیدار ہوجائے ؛تاہم اگر بیوی فجر کے لیے بیدار نہ ہو اور وہ سونے کا معمول ہی بنالے تو شوہر حسبِ حال کچھ سختی بھی کرسکتا ہے ؛البتہ اس صورت میں بھی مارنے سے گریز کرنا چاہیے ۔

    ادع الی سبیل ربک با لحکمة والموعظة الحسنة وجادلہم بالتی ہی احسن ان ربک ہو اعلم بمن ضل عن سبیلہ وہو اعلم بالمہتدین (القرآن/سورہ نحل/آیت ۵۲۱)حدثنا ابن بشار، حدثنا یحیی، حدثنا ابن عجلان، عن القعقاع، عن أبی صالح، عن أبی ہریرة، قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: رحم اللہ رجلا قام من اللیل فصلی، وأیقظ امرأتہ، فإن أبت، نضح فی وجہہا الماء، رحم اللہ امرأة قامت من اللیل فصلت، وأیقظت زوجہا، فإن أبی، نضحت فی وجہہ الماء(سنن أبی داود ،رقم: 1308،باب قیام اللیل)وفیہ حث عظیم علی قیام اللیل، حتی إن من لم یقم اختیارا یقام بالإزعاج. وأخرجہ النسائی، وابن ماجہ.(شرح أبی داود للعینی 5/ 215)وفی المرقاة:(" نضح ") ، أی: رش (" فی وجہہا الماء ") : والمراد التلطف معہا والسعی فی قیامہا لطاعة ربہا مہما أمکن، قال تعالی: {وتعاونوا علی البر والتقوی} (المائدة: 2] وقال ابن الملک: وہذا یدل علی أن إکراہ أحد علی الخیر یجوز، بل یستحب. (" رحم اللہ امرأة قامت من اللیل ") ، أی: وفقت بالسبق (" فصلت وأیقظت زوجہا ") : والواو لمطلق الجمع، وفی الترتیب الذکری إشارة لطیفة لا تخفی (" فصلی ") ، أی: بسببہا (" فإن أبی نضحت فی وجہہ الماء ") : وفیہ بیان حسن المعاشرة وکمال الملاطفة والموافقة.(مرقاة المفاتیح شرح مشکاة المصابیح 3/ 928)عن عبد اللہ بن عمر أن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال: ألا کلکم راع وکلکم مسؤول عن رعیتہ، فالأمیر الذی علی الناس راع علیہم وہو مسؤول عنہم، والرجل راع علی أہل بیتہ وہو مسؤول عنہم، والمرأة راعیة علی بیت بعلہا وولدہ وہی مسؤولة عنہم، والعبد راع علی مال سیدہ وہو مسؤول عنہ فکلکم راع وکلکم مسؤول عن رعیتہ.قال الشیخ: معنی الراعی ہہنا الحافظ المؤتمن علی ما یلیہ یأمرہم بالنصیحة فیما یلونہ ویحذرہم أن یخونوا فیما وکل إلیہم منہ أو یضیعوا وأخبر أنہم مسؤولون عنہ ومؤاخذون بہ.(معالم السنن 3/ 2) کما صرحوا أنہ یکرہ السہر إذا خاف فوت الصبح لکن الناسی أو النائم غیر قادر فسقط الإثم عنہما لکن وجب علی من یعلم حالہما تذکیر الناسی وإیقاظ النائم إلا فی حق الضعیف عن الصوم مرحمة لہ. اہ.(الدر المختار وحاشیة ابن عابدین (رد المحتار) 2/ 395) وفی غایة البیان: یستحب طلاقہا إذا کانت سلیطة مؤذیة أو تارکة للصلاة لا تقیم حدود اللہ تعالی اہ. وہو یفید جواز معاشرة من لا تصلی ولا إثم علیہ بل علیہا ولذا قالوا فی الفتاوی لہ أن یضربہا علی ترک الصلاة ولم یقولوا علیہ مع أن فی ضربہا علی ترکہا روایتین ذکرہما قاضی خان.(البحر الرائق شرح کنز الدقائق ومنحة الخالق وتکملة الطوری 3/ 255)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند