• معاشرت >> نکاح

    سوال نمبر: 68088

    عنوان: شریعت میں دوسرا نکاح اس شرط کے ساتھ جائز ہے کہ دونوں بیویوں کے درمیان حقوق کی ادائے گی میں ہر اعتبار سے عدل و مساوات پر قدرت حاصل ہو

    سوال: کیا فرماے ہیں مفتیان عظام میرے اس مسئلہ کے بارے میں کہ میں رزاق حسین ولد احمد حسین کھجہ کالونی نظام آباد میرا نکاح 2003 میں بشیر النساء بی بنت محمد پاشاہ صاحب ساکن گنتہ کل ضلع کرنول سے ہوا ہے مجھے فی الحال ایک لڑکی ہے جس کی عمر ۱۰ سال ہے عرض کرنا یہ ہے کہ ۲۰۰۶ء میں میری اہلیہ حمل سے تھی اس وقت میں دبئی چلا گیا تھا ہمارے خسر صاحب کی خواہش یہ تھی کہ میری اہلیہ کی نارمل ڈلیوری کی جائے، جب کہ ڈاکٹر کے کہنے کے مطابق آپریشن ضروری تھا، نارمل ڈلیوری کی و جہ سے ماں اور بچہ دونوں کی جان کو خطرہ تھا لیکن میرے خسر صاحب کی ضد کی وجہ سے نارمل ڈلیوی کرائی گئی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ بچہ کا انتقال ہوگا اور میری اہلیہ کو ہارٹ کی بیماری ہوگئی، ڈاکٹر نے یہ بھی کہا کہ اب ان سے کوئی اولاد نہ رکھے غاگر حمل ٹھیرگیا تو ڈلیوری کے وقت ماں کی جان جاسکتی ہے چوں کہ اہلیہ کو ہارٹ کی شکایت ہے میری اہلیہ ہمیشہ بیمار رہتی ہے جس کی وجہ سے گھر کے کام کاج او ردیگر ذمہ داریاں ان سے مشکل یہاں تک کے ایک بالٹی پانی بھی نہیں لے جاسکتی دم چڑھ کر آتا ہے میری والدہ حسین بی ہماری اب تک خدمت کرتی آئی ہے اب وہ بوڑھی ہوچکی ہے ان کے پاس استطاعت بھی نہیں ہے ڈاکٹر نے کہا کہ آپ کی اہلیہ کو ذہنی تکلیف اور دلی تکلیف سے دور رکھیں ورنہ اس صدمے سے ان کو ہارٹ بھی آسکتا ہے اور کئی مرتبہ ایسا ہوا بھی ہے فوراً ہاسپٹل بھی منتقل گیا گیا ایسے حالت میں میں اب اپنی اہلیہ بشیر النساء کو اپنے نکاح میں رکھتے ہوئے ایک اور نکاح کرنا چاہتا ہوں اور دونوں کے لیے الگ الگ مکان بھی تیار ہے ان کے پورے حقوق کی بھی ادائیگی کروں گا کیا شریعت محمدیہ مجھے ایک اور نکاح کی اجازت دیتی ہے؟ میں نے اپنی اہلیہ سے مشورہ بھی کیا ہوں لیکن وہ کہتی ہے کہ آپ دوسری شادی نہیں کریں ورنہ میں کیس کروں گی اور اپنی بچی کو لے کر چلی جاوٴں گی میں نے سوچا کہ کیوں نہ میری اہلیہ کی والدہ اور سالی صاحبہ سے بات کروں میں نے ان سے مشورہ بھی کیا لیکن انھوں نے یہ کہا کہ ہمارے خاندان میں ایسا نہیں آرہا ہے۔ میں شرعی پنچایت سے بھی رجوع ہوا تھا لیکن وہاں سے ناامیدی کے جواب نے مجھے اور بھی کمزور کردیا انھوں نے کہا کہ آپ کا نکاح کرنول ضلع کی لڑکی سے ہوا ہے آپ وہاں کی شرعی پنچایت سے رابطہ کریں باضابطہ میں نے اپنی سسرال سے کہا کہ ہم شرعی پنچایت میں مسئلہ کو سلجھالیں گے وہ لوگ اس کے لیے بھی تیار نہیں ہیں، اگر آپ مفتیان عظام کیجانب سے کوئی لکھت نامہ جو کہ فتوی کی شکل میں عنایت فرمائیں تو نوازش ہوگی اور میرے لیے راہ شریعت ہموار ہوجائے گی اور ایک دینی ثبوت بھی مجھے بتانے کے لیے کافی ہوجائے گا۔

    جواب نمبر: 68088

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 721-790/sd=9/1437 شریعت میں دوسرا نکاح اس شرط کے ساتھ جائز ہے کہ دونوں بیویوں کے درمیان حقوق کی ادائے گی میں ہر اعتبار سے عدل و مساوات پر قدرت حاصل ہو، اگر آپ کو اپنے اوپر اطمینان ہے کہ آپ دوسرے نکاح کے بعد دونوں بیویوں کے حقوق پورے طور پر برابری کے ساتھ اداء کریں گے، تو شرعا آپ کے لیے دوسرا نکاح کرنا جائز ہے؛ پہلی بیوی اور اس کے گھر والوں کو منع کرنے کا حق نہیں ہے؛ لیکن یاد رکھنا چاہیے کہ موجودہ وقت میں دوسری شادی کرنے میں بسا اوقات پہلے سے زیادہ مسائل پیدا ہوجاتے ہیں، اس لیے اس سلسلے میں بہت سوچ سمجھ کر قدم اٹھانا چاہیے۔ خاندان کے دیندار، با اثر، تجربہ کار افراد سے مشورہ بھی کر لینا چاہیے۔ قال اللّٰہ تبارک وتعالیٰ: ﴿ فَانْکِحُوْا مَا طَابَ لَکُمْ مِنَ النِّسَآءِ مَثْنٰی وُثُلٰثَ وَرُبٰعَ﴾ (النساء، جزء آیت: ۳)وللحر أن یتزوج أربعًا من الحرائر والإماء۔ (فتح القدیر ۳/۲۳۹ بیروت) ویجب أن یعدل فیہ أي في القسم بالتسویة في البیتوتة، وفي الملابس والماکول والصحبة۔ (الدر المختار) ومما یجب علی الأزواج للنساء العدل والتسویة بینہن فیما یملکہ۔ (شامي ۴/۳۷۹ زکریا)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند