• معاشرت >> نکاح

    سوال نمبر: 14036

    عنوان:

    حوالہ: فتوی نمبر 1016=865/ھ، جو کہ سوال نمبر 13310کے جواب میں جاری کیا گیا ہے۔ میں آپ کو یہ بتانا چاہتی ہوں کہ دونوں واقعات جو کہ سوال نمبر 13310میں مذکور ہیں ایک ہی عورت سے متعلق ہیں۔ اب برائے کرم شریعت کی روشنی میں نیچے مذکور صورت کو واضح کریں : (۱)کیا عورت نکاح سے خارج ہوجائے گی (اس کے کفر کے عمل یعنی کفریہ کلمات کی وجہ سے جس کو اس نے 2000میں کیا) جو کہ اوپر مذکور فتوی میں ذکر کیا گیا ہے؟ الف -۱: اس کے ان بچوں کے بارے میں کیا حکم ہے جو کہ اس کفریہ حرکت کے بعد پیدا ہوئے،کیا وہ جائز ہیں یا نہیں؟(۲)اگر ان بچوں کا عقیقہ پہلے ہی کردیا گیا ہے تو کیا اس کے نکاح کی تجدید کے بعد ان بچوں کا عقیقہ دوبارہ کیا جائے گا؟ (ب)کیا ان تین طلاقوں کا کوئی اثر ہوگا جس کو اس کے شوہر نے 2009میں اس کے اس گندے عمل کی وجہ سے ایک ساتھ دی تھی؟کیا کفر کی بنیاد پر عدم تجدید نکاح کی صورت میں یہ طلاق واقع ہوگی؟ اگر ہاں، تو کیا عدت او رحلالہ ضروری ہیں؟ برائے کرم ان سوالوں کا جواب جلد از جلد دیں جس کے لیے میں اور متاثرہ فیملی آپ کی ممنون و مشکور ہوگی؟

    نوٹ: سابقہ سوال و جواب منسلک ہے۔

    سوال:

    حوالہ: فتوی نمبر 1016=865/ھ، جو کہ سوال نمبر 13310کے جواب میں جاری کیا گیا ہے۔ میں آپ کو یہ بتانا چاہتی ہوں کہ دونوں واقعات جو کہ سوال نمبر 13310میں مذکور ہیں ایک ہی عورت سے متعلق ہیں۔ اب برائے کرم شریعت کی روشنی میں نیچے مذکور صورت کو واضح کریں : (۱)کیا عورت نکاح سے خارج ہوجائے گی (اس کے کفر کے عمل یعنی کفریہ کلمات کی وجہ سے جس کو اس نے 2000میں کیا) جو کہ اوپر مذکور فتوی میں ذکر کیا گیا ہے؟ الف -۱: اس کے ان بچوں کے بارے میں کیا حکم ہے جو کہ اس کفریہ حرکت کے بعد پیدا ہوئے،کیا وہ جائز ہیں یا نہیں؟(۲)اگر ان بچوں کا عقیقہ پہلے ہی کردیا گیا ہے تو کیا اس کے نکاح کی تجدید کے بعد ان بچوں کا عقیقہ دوبارہ کیا جائے گا؟ (ب)کیا ان تین طلاقوں کا کوئی اثر ہوگا جس کو اس کے شوہر نے 2009میں اس کے اس گندے عمل کی وجہ سے ایک ساتھ دی تھی؟کیا کفر کی بنیاد پر عدم تجدید نکاح کی صورت میں یہ طلاق واقع ہوگی؟ اگر ہاں، تو کیا عدت او رحلالہ ضروری ہیں؟ برائے کرم ان سوالوں کا جواب جلد از جلد دیں جس کے لیے میں اور متاثرہ فیملی آپ کی ممنون و مشکور ہوگی؟

    نوٹ: سابقہ سوال و جواب منسلک ہے۔

    جواب نمبر: 14036

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی: 1188=1009/د

     

    سابقہ فتوے کی رو سے عورت نکاح سے خارج نہیں ہوئی بلکہ احتیاطاً تجدید نکاح کا حکم دیا گیا تھا، لہٰذا ۲۰۰۹ء میں شوہر کی جانب سے دی گئی تین طلاق واقع ہوگئی اور اب دونوں کا رشتہ نکاح بالکلیہ ختم ہوگیا، عورت اپنی عدت تین ماہواری کے ذریعہ پوری کرکے علاوہ شوہر مذکور کے جس دوسرے مرد سے نکاح کرنا چاہے کرسکتی ہے، بعد نکاح شوہر ثانی ہمبستری بھی کرے ،بعدہ اگر شوہر ثانی طلاق دیدیتا ہے تو عورت دوبارہ اپنی عدت پوری کرکے نیا عقد کرنے کی مجاز ہوجائے گی، اس وقت اگر چاہے گی تو شوہر اول سے بھی نکاح کرنا جائز جائے گا۔ حاصل یہ کہ شوہر اول سے دوبارہ نکاح کرنے کے لیے عدت اور حلالہ شرعیہ ضروری ہے۔ تین طلاق سے پہلے پیدا ہونے والے بچے ثابت النسب کہلائیں گے، نیا عقیقہ کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند