معاملات >> سود و انشورنس
سوال نمبر: 49966
جواب نمبر: 49966
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 385-385/M=4/1435-U اکاوٴنٹنٹ کے مذکورہ کام وآمدنی پر اگرچہ حرام ہونے کا حکم نہیں لیکن اس سے بچنا بہتر ہے، حضرت مفتی تقی عثمانی صاحب لکھتے ہیں: ”مختلف کمپنیوں یا فرموں میں اکاوٴنٹینٹ (محاسب) اور آڈیٹر، ہوتے ہیں جو ان کے حسابات کو چیک کرتے ہیں، ان کا پیشہ حسابات کو چیک کرنا یا یاد رکھنا ہوتا ہے یہ کمپنیاں یا فرم بینک سے قرض لیے ہوئے ہوتے ہیں یا اپنی رقم سودی کھاتوں میں رکھوائی ہوتی ہے، سود ملتا ہے، ان کا اندراج ان کی کاپیوں میں کرنا ہوتا ہے یا اس کی چیکنگ کرنی ہوتی ہے، تو خیال ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کاتب ربا پر لعنت فرمائی تو یہ بھی کاتب ربا میں داخل ہے، لیکن اس حدیث کی شرح میں علمائے کرام نے جو کچھ ارشاد فرمایا ہے اس سے میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ یہ کاتب ربا کی اس وعید میں نہیں، کاتب ربا کی وعید اس شخص پر صادق آتی ہے جو ربا کا معاون ہے اور ربا کا معاہدہ لکھتا ہے، اور جس نے محض لکھا اور صرف حساب کی چیکنگ کی تو وہ اس وعید میں بظاہر داخل نہیں یہ اور بات ہے کہ ربا ایسی چیز ہے کہ جس طرح عین ربا کا ارتکاب حرام ہے اس کے مشابہ اور اس کے اندر جہاں شبہات ہوں اس کو بھی آدمی ترک کرے اور اس سے پرہیز کرے تو بہتر ہے لیکن یہ نہیں کہا جائے گا کہ اکاوٴنٹینٹ کی آمدنی اس کی وجہ سے حرام ہوگئی“۔ (اسلام اور جدید معاشی مسائل: ۴/۱۳۵)
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند