• معاملات >> سود و انشورنس

    سوال نمبر: 49966

    عنوان: اگر آڈیٹر بینک کا ملازم نہیں ہے اوروہ صرف اس چیز کا پابند ہے کہ آیا بینک کے اکاوٴنٹنٹ کے ذریعہ سے جو مالی اکاوٴنٹ دیکھے جاتے ہیں وہ درست ہیں یا نہیں، تو کیا یہ کام حرام ہے؟

    سوال: اگر آڈیٹر بینک کا ملازم نہیں ہے اوروہ صرف اس چیز کا پابند ہے کہ آیا بینک کے اکاوٴنٹنٹ کے ذریعہ سے جو مالی اکاوٴنٹ دیکھے جاتے ہیں وہ درست ہیں یا نہیں، تو کیا یہ کام حرام ہے؟ تاہم اگر، آڈٹ یہ چیک کرتا ہے کہ آیا جو لون بینک نے دئے ہیں وہ حکومت ہندیا بینک کی ہیڈ آفس کے ذریعہ سے بنائے گئے قانون سے ہم آہنگ ہیں یا نہیں؟ کیوں کہ ایسا اکثر ہوتا ہے ۔ کیا اس طرح کے کام کی آمدنی حرام ہوگی؟ اگر آڈیٹر یہ چیک کرتا ہے اور رپورٹ کرتا ہے کہ لون بغیر قانون کو مد نظر رکھتے ہوئے منظور کیا گیا ہے تو اس کو کینسل کیا جاسکتا ہے۔ مثال کے طور پر، آڈیٹر چیک کرے گا اور تحریر کرے گا کہ آیا کاغذات جن کی ضرورت ہے جیسے ٹیکس ریٹرن، آئی ڈی پروف، لون لینے والے کے ذریعہ سے جمع کئے گئے ہیں۔ کیا ایسا کرنا لون لینے والے شخص کی مدد کرنے میں شمار ہوگا؟

    جواب نمبر: 49966

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 385-385/M=4/1435-U اکاوٴنٹنٹ کے مذکورہ کام وآمدنی پر اگرچہ حرام ہونے کا حکم نہیں لیکن اس سے بچنا بہتر ہے، حضرت مفتی تقی عثمانی صاحب لکھتے ہیں: ”مختلف کمپنیوں یا فرموں میں اکاوٴنٹینٹ (محاسب) اور آڈیٹر، ہوتے ہیں جو ان کے حسابات کو چیک کرتے ہیں، ان کا پیشہ حسابات کو چیک کرنا یا یاد رکھنا ہوتا ہے یہ کمپنیاں یا فرم بینک سے قرض لیے ہوئے ہوتے ہیں یا اپنی رقم سودی کھاتوں میں رکھوائی ہوتی ہے، سود ملتا ہے، ان کا اندراج ان کی کاپیوں میں کرنا ہوتا ہے یا اس کی چیکنگ کرنی ہوتی ہے، تو خیال ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کاتب ربا پر لعنت فرمائی تو یہ بھی کاتب ربا میں داخل ہے، لیکن اس حدیث کی شرح میں علمائے کرام نے جو کچھ ارشاد فرمایا ہے اس سے میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ یہ کاتب ربا کی اس وعید میں نہیں، کاتب ربا کی وعید اس شخص پر صادق آتی ہے جو ربا کا معاون ہے اور ربا کا معاہدہ لکھتا ہے، اور جس نے محض لکھا اور صرف حساب کی چیکنگ کی تو وہ اس وعید میں بظاہر داخل نہیں یہ اور بات ہے کہ ربا ایسی چیز ہے کہ جس طرح عین ربا کا ارتکاب حرام ہے اس کے مشابہ اور اس کے اندر جہاں شبہات ہوں اس کو بھی آدمی ترک کرے اور اس سے پرہیز کرے تو بہتر ہے لیکن یہ نہیں کہا جائے گا کہ اکاوٴنٹینٹ کی آمدنی اس کی وجہ سے حرام ہوگئی“۔ (اسلام اور جدید معاشی مسائل: ۴/۱۳۵)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند