• معاملات >> سود و انشورنس

    سوال نمبر: 605582

    عنوان:

    کس حال میں لون لینا جائز ہے؟

    سوال:

    میرے گھر میں بہت بہت بہت پریشانی ہے، میرے والد پہلے سے ہی بہت قرض میں ڈوبے ہوئے ہیں، اور ان کی طبیعت ہمیشہ خراب رہتی ہے جس کی وجہ سے ہر مہینہ ان کی دوائی میں کافی پیسہ خر چ ہوجاتاہے، میرا چھوٹا سا مرغا بیچنے کا بزنس ہے جس میں پونجی رقم بہت ہے، اور جو گھر کا اور دوا ئیوں کا خرچ ہر مہینہ کافی زیادہ ہے جس کی وجہ سے میری پونجی دن بہ دن کم ہوتی جارہی ہے، اوراگر ایسا چلتا رہے تو کچھ مہینے بعد میرا بزنس پھر سے بند ہوجائے گا، حالت یہ ہے کہ اگر میں زیادہ پونجی لگاؤں تو میرے خرچ کی رقم آسانی سے نکل جائے گی اور میرا بزنس بھی بند نہیں ہوگا، پہلے سے ہی جس پونجی کو لگا کر میں بزنس چلا رہا ہوں وہ سارے لون (سود پر ) اور قرض پر ہے، زمین ہے، لیکن اس کی بکری نہیں ہورہی ہے اور اگر کوئی مشکل سے کوئی خرید بھی رہا ہے تو مارکیٹ ویلو سے بہت ہی کم دے رہا ہے ، یوں سمجھیں کہ زمین کی قیمت 100 روپئے ہے تو وہ 25 روپئے دے رہا ہے، جس سے میرا قرض بھی ادا نہیں ہوگا اور نہ ہی بزنس بڑھے گا اور بچی کھچی زمین بھی ختم ہوجائے گی۔

    میرا سوال یہ ہے کہ کتنی ساری مشکلوں کے بعد میں پرسنل لون (دو سے پانچ پرسینٹ پر ) بینک سے لے سکتاہوں یا نہیں جب کہ مجھے لون مل رہاہے ، میری ایک پک اپ(pick up) ہے لیکن وہ قسط پر لی گئی تھی جس کی قسط نہ د ینے پر وہ روڈپر چل نہیں سکتی ہے تو کیا میں پرسنل لون لے کر چھڑا سکتاہوں یا نہیں تاکہ اس پک اپ سے اپنا ڈوبتا ہوا بزنس سنبھال سکوں اور گھر کا خرچ چلا سکوں ؟ اگر آپ ان مشکلوں کے باوجود لون (انٹریسٹ پر ) لینے کی اجازت نہیں دے رہے ہیں تو کیا میں بزنس ڈوبا دوں ؟ بھوک سے مرجاؤں؟

    براہ کرم، جواب ضرور دیں،میں بڑی مشکل میں ہوں اور ایک چیز اور جان لیں ، میرے پاس پیسوں کی کوئی دوسری صورت نہیں ہے۔

    جواب نمبر: 605582

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:893-162T/N=12/1442

     اسلام میں جس طرح سود لینا حرام ہے، اسی طرح سود دینا بھی حرام ہے، اور حدیث پاک میں سود لینے والے اور دینے والے دونوں پر لعنت آئی ہے (صحیح مسلم)اورپرسنل لون لینے میں لازمی طور پر آپ کو سود دینا ہوگا اور سودی قرض نحوست وسخت بے برکتی کا ذریعہ ہوتا ہے اور اس وقت آپ پر جو ناگفتہ بہ حالات آئے ہوئے ہیں، کچھ بعید نہیں کہ وہ بزنس کے لیے لون لینے اور سودی قرض کی قسطوں پر پک اپ لینے کا نتیجہ ہو؛ لہٰذا آپ کو سودی قرض کی اجازت دے کر مزید مشکلات ومسائل میں نہیں پھنسایا جاسکتا، نیز سودی قرض لینا مسئلے کا حل بھی نہیں ہے؛ بلکہ اس کا برا انجام یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ادائیگی میں تاخیر اور دن بہ دن سود بڑھنے کی بنا پر آپ مزید مشکلات کا شکار ہوکر اپنی بچی کھچی پونجی اور زمین وغیرہ بھی برباد کرلیں؛ لہٰذا آپ سودی قرض سے بچیں اور اللہ تعالی کی ذات پر سچا، پکا اور کامل بھروسہ رکھتے ہوئے، دل سوزی کے ساتھ توبہ واستغفار اور دعا جاری رکھتے ہوئے اور تجربہ کاروں کے تجربات ومشوروں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بزنس کی ترقی میں بھر پور محنت کریں اور جلد از جلد سودی قرض ادا کرنے کی کوشش کریں، إن شاء اللّٰہ کچھ ہی عرصہ میں آپ کا بزنس بہتر ہوجائے گا، خوب ترقی کرے گا اور آپ کے حالات بھی درست ہوجائیں گے۔

    قال اللّٰہ تعالی:﴿وأحل اللّٰہ البیع وحرم الربا﴾ (سورة البقرة، رقم الآیة: ۲۷۵)۔

    عن جابر بن عبد اللّٰہ رضي اللّٰہ عنہما قال: ”لعن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم آکل الربوا وموٴکلہ وکاتبہ وشاہدیہ، وقال: ہم سواء“ (الصحیح لمسلم، ۲: ۷۲، ط: المکتبة الأشرفیة دیوبند)۔

    الربا فضل خال عن عوض بمعیار شرعي مشروط لأحد المتعاقدین في المعاوضة (تنویر الأبصار مع الدر والرد، کتاب البیوع، باب الربا، ۷: ۳۹۸ - ۴۰۱، ط: مکتبة زکریا دیوبند، ۱۵: ۲۱۹ - ۲۲۳، ت: الفرفور، ط: دمشق)۔

    قولہ: ”کل قرض جر نفعًا حرام“: أي: إذا کان مشروطًا، کما علم مما نقلہ عن البحر وعن الخلاصة (رد المحتار، کتاب البیوع، باب المرابحة والتولیة، فصل في القرض، ۷: ۳۹۵، ط: مکتبة زکریا دیوبند، ۱۵: ۲۱۲، ت: الفرفور، ط: دمشق)۔

    الفضل المشروط في القرض ربا محرم لا یجوز للمسلم أخذہ من أخیہ المسلم أبدًا، لإجماع المجتہدین علی حرمتہ، فلم یقل أحد منھم بجواز الفضل المشروط فی القرض (إعلاء السنن، رسالة کشف الدجی علی حرمة الربا، ۱۴:۵۳۳، ط: إدارة القرآن والعلوم الإسلامیة، کراتشی)۔

    الربا ہو القرض علی أن یؤدي إلیہ أکثر أو أفضل مما أخذ (حجة اللّٰہ البالغة، الربا سحت باطل، ۲:۲۸۲) ۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند