• معاملات >> وراثت ووصیت

    سوال نمبر: 607255

    عنوان:

    والد کا اپنے بیٹے اور اپنی بیوی کے حق میں وصیت کرنا

    سوال:

    سوال : کیا فرماتے ہیں کے علماء کرام و مفتیان عظام بیچ اس مسئلے کے کہ میرے والد صاحب کے کل آٹھ اولاد ہیں پانچ لڑکے اور تین لڑکیاں اور ہماری والدہ صاحبہ بھی حیات ہے والد صاحب نے ایک زمین خریدی اس زمین پر مکان کی تعمیر کی ۔ مکان کی تعمیر میں بڑے بھائی نے پچاس ہزار روپیے دیے تھے خدمت کے طور پر، پھرکچھ عرصے بعد والد صاحب نے پچاس ہزار روپیے کے بدلے ایک لاکھ روپئے بڑے بھائی کو دینا چاہے مگر بڑے بھائی نے لینے سے انکار کر دیا والد صاحب نے بڑے بھائی سے کہا کہ تم نے میری زمین میں مکان بنا لینا جو خالی جگہ بچی تھی اس میں بھائی نے نہیں بنایا۔ پھر کچھ عرصے بعد بڑے بھائی سے کسی نہ اتفاقی کی بنا پر والد صاحب نے ان کی پوری ملکیت اور اس پر تعمیر شدہ مکان سب سے چھوٹے بیٹے محمد رفیق کو وصیت کردی کہ میری پوری ملکیت میرے چھوٹے بیٹے اور میری بیوی کی رہیں گی ۔ لیکن والد صاحب کے اس وصیت کی کسی اولاد کو خبر نہ تھی سوائے چھوٹے بیٹے محمد رفیق کے ۔ والد صاحب نے یہ عمل کسی کو بتائے بغیر کیا اور اس بات کا ,,مرتیؤ پتر ،، یعنی وصیت نامہ بھی بنا لیا کہ میرے مرنے کے بعد میری ساری زمین اور مکان یہ میرے چھوٹے بیٹے اور میری بیوی کا رہیگا۔ اب دریافت طلب امر یہ ہے کہ ہمارے والد صاحب کی ملکیت ہمارے تمام بھائیوں اور بہنوں میں وراثتا تقسیم ہوگی یا پھر پوری ملکیت چھوٹے بھائی محمد رفیق اور والدہ کی ہدیةً شمار ہوگی ۔ ۱) والد صاحب کی حیات ہی میں ہمارے سارے بھائی دوسری جگہ اپنے ذاتی مکان یا کرائے کے مکان میں رہتے تھے صرف چھوٹا بھائی ہی والد صاحب کے ساتھ رہتاتھا ۔ ۲) والد صاحب نے آدھی جگہ پر تعمیر کرائی تھی فی الحال بقیہ جگہ پر چھوٹے بھائی محمد رفیق نے تعمیر کرائی ہے ۔ والدہ بھی اس کے ساتھ ہی رہتی ہے ۔

    ۲) والد صاحب نے وصیت کر دینے کے بعد گھر خالی نہیں کیا تھا بلکہ تا حیات اسی مکان میں رہے ہیں چھوٹا بھائی بھی ساتھ ہی رہا ۔ ۴)وصیت نامے پر والد صاحب کی دستخط اور دو مسلم گواہان کی بھی دستخط موجود ہے ۔ آپ سے امید ہے کہ آپ شریعت کی روشنی میں ہماری رہبری فرما کر عندنا مشکور و عند اللہ ماجور ہوں گے ۔ انشائاللہ ۔

    جواب نمبر: 607255

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa : 352-68T/M=04/1443

    برتقدیر صحت تفصیل مذکور، صورت مسئولہ میں والد صاحب کی مذکورہ وصیت، اپنے چھوٹے بیٹے اور اپنی بیوی کے حق میں اگر ثابت ہے تو یہ وصیت معتبر نہیں، شرعاً وارث کے لیے وصیت نہیں ہوتی اس لیے اگر معاملہ صرف وصیت کا ہے اور زندگی میں ہبةً دے کر مالک و قابض بنانے کا معاملہ نہیں ہے تو پوری ملکیت، والد صاحب ہی کی برقرار رہی، اگر والد صاحب کا انتقال ہوچکا ہے تو پوری ملکیت والد صاحب کا ترکہ بن گئی اس میں والدہ سمیت سبھی اولاد کا بھی حسب حصص، حق ہے۔ اگر والد صاحب حیات ہوں یا ہبہ کا معاملہ ہو تو صاف اور واضح طور پر لکھ کر سوال دوبارہ کرسکتے ہیں۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند