• معاملات >> وراثت ووصیت

    سوال نمبر: 606197

    عنوان:

    بیٹوں کے لیے وصیت کرنا؟

    سوال:

    سوال : ایک شخص کے دو بیٹے اور تین بیٹیاں ہیں اس شخص نے اپنے اِنتقال کے دو سال قبل اپنے بیٹوں کو وصیت کی کہ میرے اِنتقال کے بعد میرے مکان کو میرا بڑا لڑکا رکھے گا اور چھوٹا لڑکا دوسرا مکان رکھے گا جس میں اس وقت کرائے دار رہتے تھے والد کے انتقال کے بعد چھوٹے لڑکے نے باپ کی وصیت کے مطابق دوسرا مکان رکھ لیا۔مسئلہ یہ ہے کہ تینوں بہنوں کو حصّہ دینا ہے توکیا وراثت میں دونوں مکان کو شامل کیا جائے گا یا صرف جس مکان میں والد رہتے تھے اُسی مکان پر وراثت تقسیمِ ہوگی؟

    جواب نمبر: 606197

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa : 113-317/B=04/1443

     جس شخص کی وفات ہوئی اور اس نے اپنی ملکیت میں جس قدر ترکہ چھوڑا تھا ان سب میں بھائی بہنوں کا سب کا حق ہوگا۔ والد صاحب نے جو وصیت کی ہے اپنے دونوں بیٹوں کے لیے وہ وصیت شرعاً باطل ہے اور ناجائز ہے۔ اپنے وارث کے حق میں وصیت جائز نہیں، لہٰذا والد صاحب کی وصیت نافذ نہ ہوگی؛ بلکہ والد صاحب کا کل ترکہ قرآن و حدیث کی روشنی میں تقسیم ہوگا۔ اگر والد صاحب کے یہی 5 وارث ہیں اس کے علاوہ اور کوئی وارث نہیں ہے تو والد صاحب کے دونوں مکان کی مالیت لگائی جائے گی، اور ان سب کو 7 سہام پر تقسیم کیا جائے گا جن میں سے دونوں لڑکوں کو 2-2 سہام ملیں گے اور تینوں بیٹیوں کو ایک ایک سہام ملے گا۔ اسی کے مطابق تقسیم کیا جائے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند