• معاملات >> وراثت ووصیت

    سوال نمبر: 60998

    عنوان: وراثت

    سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے کرام و مفتیان عظام مسئلہ ذیل کے بارے میں۔ جناب خلیل اللہ صاحب اپنی بیوی نازنین کو بطور ہبہ ایک گھر دیئے پھر چند سال کے بعد نازنین گزر گئی اور انکے شوہر خلیل اللہ باحیات ہیں ، اور ان کو کوئی اولاد نہیں ہیں ، البتہ خلیل اللہ صاحب کی سالی یعنی نازنین کے بہن زینت کی چار بچے ہیں اور وہ بھی نازنین کے بعد گزر گئی ، فی الحال خلیل اللہ صاحب جس گھر کو اپنی بیوی کو ہبہ کئے ہیں وہ تو گزرگئی اور ان کو اولاد بھی نہیں ہیں ، البتہ انکی بہن یعنی خلیل اللہ صاحب کی سالی کے چار بچے ایک لڑکا اور تین لڑکیاں ہیں ۔ اب اس گھر کو خلیل اللہ صاحب اپنی سالی کے بچے کے درمیان شرعا کیسے تقسیم کریں گے ؟ یاد رہے کہ خلیل اللہ کے والدین اور انکی بیوی نازنین کے والدین بھی گزرچکے ہیں البتہ خلیل اللہ کی دو بہن ہیں جو کہ اپنے اپنے شوہر کے پاس خوشحال ہیں ۔

    جواب نمبر: 60998

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 664-664/Sd=11/1436-U جناب خلیل اللہ صاحب نے اگر اپنی بیوی نازنین کو مذکورہ گھر ہبہ کرکے مالک وقابض بنادیا تھا اور ہبہ کردہ گھر سے خود دست بردار ہوگئے تھے، تو شرعاً نازنین اس گھر کی مالک تھیں، ان کے انتقال کے بعد اب یہ گھر بعد ادائے حقوق متقدمہ علی الارث وعدم موانع ارث کل دس حصوں میں تقسیم ہوگا، جس میں سے شوہر خلیل اللہ کو پانچ حصے، بہن کے لڑکے کو دو حصے اور بہن کی تینوں لڑکیوں میں سے ہرایک کو ایک ایک حصہ ملے گا، تقسیم کا نقشہ حسب ذیل ہے: کل ترکہ کے حصے= ۱۰ خلیل اللہ = ۵ نازنین کی بہن کا بیٹا = ۲ تینوں بیٹیاں = ۳


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند