• معاملات >> وراثت ووصیت

    سوال نمبر: 605242

    عنوان:

    والد والدہ حیات ہیں‏، ہم چار بھائی بہنوں میں جائیداد كس طرح تقسیم ہوگی؟

    سوال:

    ہم چار بھائی، چار بہنیں ، والد اور والدہ حیات ہیں، گھریلو معاملات خراب ہونے کی وجہ سے میری والدہ ہمارا مکان جس کی مالیت تقریباً دو کروڑ روپئے ہیں، اور مکان والدہ کے نام ہے، فروخت کرکے سب کو حصہ تقسیم کرنا چاہتی ہیں، بھائیوں بہنوں اور والدین کا کتنا حصہ ہوگا ؟

    براہ کرم، رہنمائی فرمائیں۔

    جواب نمبر: 605242

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa : 1066-762/D=12/1442

     وراثت کی تقسیم مرنے کے بعد ہوتی ہے، زندگی میں اولاد کو دینا ہبہ کہلاتا ہے، زندگی میں مکان یا اس کی رقم اولاد کے درمیان تقسیم کرنا والدہ کے ذمہ لازم نہیں ہے؛ البتہ اگر وہ بخوشی زندگی میں تقسیم کرنا چاہتی ہیں تو اپنے اور شوہر کی ضرورت کے بقدر حصہ روک کر بقیہ کے آٹھ (8) حصے کرکے ایک ایک (1-1) حصہ ہر لڑکی لڑکے کو دیدیں۔ لڑکی لڑکے کو زندگی میں برابر دینا مستحب ہے۔ لیکن اگر وراثت کے اعتبار سے ہر لڑکے کو لڑکی کا دوگنا دینا چاہیں تو یہ بھی جائز ہے، پھر اپنا اور شوہر کا حصہ بقدر ضرورت الگ کرکے بقیہ کے بارہ (12) حصے کرکے ہر لڑکے کو دوہرا حصہ اور ہر لڑکی کو اکہرا حصہ دیا جائے گا۔ اگر مکان اس لائق ہے کہ اتنے حصے اس کے کئے جاسکیں اور ہر ایک کے لئے اس کا حصہ فائدہ اٹھانے کے لائق ہو تب تو مکان میں ہر ایک کا حصہ متعین اور مشخص کرکے اس کے قبضہ اور دخل میں دیدیا جائے۔ اور اگر قابل انتفاع نہ بچے تو مشترک طور پر ہبہ کردینا بھی جائز ہے۔

    اور اگر مکان فروخت کرکے اس کی قیمت ہبہ کرنا چاہیں تو مذکورہ تناسب سے رقم ہر ایک کو ہبہ کرکے اس کے قبضہ میں دیدیں۔

    نوٹ:۔ والد والدہ کا کوئی حصہ متعین نہیں ہے اپنی ضرورت کے لحاظ سے جس قدر چاہیں والدہ اپنے لئے رکھ لیں اور جس قدر چاہیں والد کو دیں۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند