• معاملات >> وراثت ووصیت

    سوال نمبر: 51287

    عنوان: كیا بیٹا اس تحفے کا قانونی وارث ہے؟ یا اس کو ورثہ کے درمیان تقسیم کیا جانا چاہئے؟

    سوال: والد نے اپنے بیٹے کو ایک مکان تحفہ میں دیا،(جو قانونی طریقے سے اس کے نام ٹرانسفر ہوگیاہے)، کیوں کہ وہ حافظ قرآن ہے، لیکن سبھی ایک مشترکہ فیملی میں رہتے تھے اور والد سبھی کے گارجن تھے، اب والد کا انتقال ہوگیاہے، اس بیٹے کی جب شادی ہوئی تو وہ ساڑھے تین سال تک مشترکہ فیملی میں رہا اور پھر والد صاحب کی طرف سے تحفہ میں دیئے گئے میں مکان میں منتقل ہوگیا،پھر جائداد کو کرایہ پر دیدیاگیا، اور کرایہ مشترکہ فیملی کو ملنے لگا۔ سوال یہ ہے کہ بیٹا اس تحفے کا قانونی وارث ہے؟ یا اس کو ورثہ کے درمیان تقسیم کیا جانا چاہئے؟

    جواب نمبر: 51287

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 455-455/M=4/1435-U والد صاحب نے بیٹے کو جو مکان تحفے میں دیا تھا وہ اگر اس طور پر دیدیا تھا کہ مکان دے کر بیٹے کو مالک وقابض بنادیا تھا اور والد صاحب خود اس مکان سے بالکل لاتعلق اور دست بردار ہوگئے تھے توایسی صورت میں بیٹا اس مکان کا تنہا مالک ہوگا ، اس کو والد صاحب کا ترکہ نہیں مانا جائے گا اور اگر تحفے میں دینے کی یہ صورت نہیں تھی بلکہ والد صاحب خود اس پر قابض رہے اور ان کا عمل دخل برقرار رہا تو ایسی صورت میں وہ مکان والد صاحب کا ترکہ کہلائے گا جو تمام شرعی ورثہ میں تقسیم ہوگا۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند