• معاملات >> وراثت ووصیت

    سوال نمبر: 56982

    عنوان: میری اصلاح فرمائیں تاکہ قیامت میں شرمندہ نہ ہونا پڑے۔ میں چاروں بہنوں کوکتنا کتنا حصہ دوں ، تاکہ پورا پورا حق اداہوجائے۔ اللہ میری مدد فرمائیں۔

    سوال: ہم پانچ بھائی اور چار بہنیں ہیں، میرے حصے میں گھر کے لیے والدین نے ۹۰۰ گز زمین دی ہے ، اتنا ہی سب بھائیوں کو بٹوارے میں دی ، لیکن بٹوارہ شریعت کی بجائے ہندوستان کی رسم ورواج سے ہوا ہے، بہنوں کو حصہ نہیں دیا گیا، میں نے اس پر اعتراض کیا ،ا س پر سب نے یہ کہا ہے کہ جو اپنے حصے میں سے بہنوں کو ان کا حصہ دینا چاہے وہ دیدے اور میں اپنے حصہ سے شریعت کے حساب سے دینا چاہتاہوں ۔ میری اصلاح فرمائیں تاکہ قیامت میں شرمندہ نہ ہونا پڑے۔ میں چاروں بہنوں کوکتنا کتنا حصہ دوں ، تاکہ پورا پورا حق اداہوجائے۔ اللہ میری مدد فرمائیں۔

    جواب نمبر: 56982

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 185-185/M=3/1436-U والدین کو چاہیے تھا کہ جس طرح بیٹوں کو حصہ دیا اسی طرح بیٹیوں کو بھی دیتے اور دونوں میں تفریق نہ کرتے؛ لیکن انھوں نے ایسا نہیں کیا تو اس عمل کے وہ ذمہ دار ہیں، بہرحال اگر بیٹوں کو حصہ دے کر مالک وقابض بنادیا گیا تھا تو بیٹے اپنے اپنے حصہ کے مالک بن گئے، اور والدین اپنی زندگی میں جو بٹوارہ کرتے ہیں وہ شرعی نقطہٴ نظر سے میراث نہیں کہلاتا؛ بلکہ اسے ہدیہ کہتے ہیں، جس میں کسی کا حصہ متعین نہیں ہوتا، اب جب کہ آپ کی بہنیں ہبہ سے محروم رہیں اور آپ انھیں کچھ دینا چاہتے ہیں تو آپ اپنی صوابدید سے جتنا مناسب سمجھیں دیدیں اور اگر والدین حیات ہوں تو اب بھی وہ بیٹیوں کو حصہ دے سکتے ہیں۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند