معاملات >> وراثت ووصیت
سوال نمبر: 150213
جواب نمبر: 150213
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa: 683-728/N=7/1438
(۱):وصیت صرف تہائی میں نافذ ہوتی ہے، اس سے زیادہ میں نہیں اگرچہ مرحوم نے کسی کے لیے تہائی سے زیادہ کی وصیت کی ہو؛ البتہ سب وارثین منظور کرلیں تو کچھ حرج نہیں، بہ شرطیکہ سب عاقل وبالغ ہوں؛ اس لیے اگر کسی نے اپنی ساری زمین وجائداد کی اپنے لے پالک کے لیے وصیت کی تو وہ صرف تہائی میں نافذ ہوگی، اور تہائی سے زائد میں وارثین کی اجازت کے بغیر نافذ نہ ہوگی۔ اور اگر کسی نے لے پالک کو اپنی زندگی میں اپنی ساری زمین وجائداد دیدی تو یہ ہبہ ہے اور اس میں ہبہ کی تمام شرائط کا پایا جانا ضروری ہے، اس کے بغیر ہبہ تام ومکمل نہ ہوگا ۔ اور ہبہ تام ومکمل ہونے کی صورت میں لے پالک ہبہ کردہ زمین وجائداد کا مالک تو ہوجائے گا؛ لیکن مرحوم نے اگر یہ تصرف اپنے وارثین کو نقصان پہنچانے کے لیے کیا یا اس کے عمل سے ظاہر یہی ہے تو وہ گنہگار ہوگا؛ کیوں کہ حدیث میں اس سے منع کیا گیا ہے ؛ بلکہ ایسی حرکت پر جنت سے محروم کردیے جانے کی وعید آئی ہے۔
عن أنس رضی اللہ عنہ قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: من قطع میراث وارثہ قطع اللہ میراثہ من الجنة یوم القیامة رواہ ابن ماجہ، ورواہ البیہقي في شعب الإیمان عن أبي ہریرة رضي اللہ عنہ (مشکاة المصابیح، ص۲۶۶، ط: المکتبة الأشرفیة دیوبند)، قولہ: ”من بعد وصیة یوصی بہا أو دین غیر مضار“ أي لتکون وصیتہ علی العدل، لا علی الإضرار والجور والحیف بأن یحرم بعض الورثة أو ینقصہ أو یزیدہ علی ما قدر اللہ لہ من الفریضة فمتی سعی في ذلک کان کمن ضادّ اللہ في حکمہ وقسمتہ، ولہذا قال ابن أبي حاتم حدثنا أبي، حدثنا أبو النضر الدمشقي الفرادیسی، حدثنا عم ربن المغیرة عن داوٴد بن أبي ہند عن عکرمة عن ابن عباس عن النبي صلی اللہ علیہ وسلم قال: الإضرار في الوصیة من الکبائر، ․․․ قال ابن جریر: والصحیح الموقوف (تفسیر ابن کثیر ۲:۲۳۱، ۲۳۲)، ولأنا لو جوزنا الوصیة للورثة لکان للموصي أن یوٴثر بعض الورثة، وفیہ إیذاء البعض وإیحاشہم فیوٴدي إلی قطع الرحم وأنہ حرام وما أفضی إلی الحرام فہوحرام دفعا للتناقض(بدائع الصنائع، ۶: ۴۳۳،ط: مکتبہ زکریا دیوبند)، وشرائط صحتھا فی الموھوب أن یکون مقبوضاً غیر مشاع الخ (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الھبة، ۸: ۴۸۹، ط: مکتبة زکریا دیوبند)، وکما یکون للواھب الرجوع فیھا - أي: فی الھبة الفاسدة - یکون لوارثہ بعد موتہ؛ لکونھا مستحقة الرد (رد المحتار ۸: ۴۹۶)۔ نیز مجمع الانہر (۴: ۴۱۹مطبوعہ: دار الکتب العلمیہ بیروت) دیکھیں۔
(۲): صورت مسئولہ میں لا ولد بھائی کا سارا ترکہ بعد ادائے حقوق متقدمہ علی الارث ۴/ حصوں میں تقسیم ہوگا، جن میں سے بیوہ اور بہن کو ایک، ایک حصہ اور باحیات بھائی کو ۲/ حصے ملیں گے۔ اور اب چوں کہ فروری ۲۰۱۷ء میں باحیات بھائی کا بھی انتقال ہوگیا ہے؛ لہٰذا اس کا ترکہ اس کے وارثین کو دیا جائے گا اور وہ حسب شرع آپس میں تقسیم کرلیں گے۔ اور صورت مسئولہ میں سوتیلے (باپ شریک)بھائی بہنوں کو کچھ نہیں ملے گا؛ کیوں کہ حقیقی بھائی کی موجودگی میں باپ شریک بھائی بہن وارث نہیں ہوتے ہیں۔
(۳): اگر وارثین وصیت تسلیم نہ کرتے ہیں، یعنی: انھیں لے پالک کے دعوی وصیت پر اطمینان نہ ہو تو محض دعوی سے وصیت کا ثبوت نہ ہوگا ؛ بلکہ ثبوت شرعی پیش کرنا ضروری ہوگا اور وصیت کی صورت میں لے پالک صرف تہائی کا حق دار ہوسکتا ہے، اس سے زیادہ کا نہیں؛ لہٰذا وصیت ثابت ہونے کی صورت میں بھی اس کا مرحوم کی تمام زمین وجائداد پر قابض ہوجانا اور وارثین کو ان کا شرعی حق وحصہ نہ دینا ناجائز وحرام ہے، ایسے شخص کی آخرت میں سخت پکڑ ہوسکتی ہے، اللہ تعالی حفاظت فرمائیں۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند