معاملات >> وراثت ووصیت
سوال نمبر: 163949
جواب نمبر: 16394901-Sep-2020 : تاریخ اشاعت
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa:1149-880/sn=11/1439
شخص مذکور نے جو کچھ بھی ترکہ جائداد، پیسہ، زیورات اور دیگر اثاثہ چھوڑا ہے سب کے بعد ادائے حقوق متقدمہ علی الارث کل ۱۳۲/ حصے ہوں گے، جن میں سے ۳۳/ حصے بیوی کو ۲۲/حصے ماں کو ۱۴-۱۴/ حصے چاروں بھائیوں میں سے ہرایک کو اور ۷-۷/ حصے تینوں بہنوں میں سے ہرایک کو ملیں گے، چچا، پھوپھی، ماموں اور خالہ وغیرہ کو مرحوم ترکہ میں سے کچھ نہ ملے گا۔
نقشہ تخریج حسب ذیل ہے
زوجہ = ۳۳
ماں = ۲۲
بھائی = ۱۴
بھائی = ۱۴
بھائی = ۱۴
بھائی = ۱۴
بہن = ۷
بہن = ۷
بہن = ۷
نوٹ: یہ تقسیم اس تقدیر پر ہے کہ مرحوم نے اپنے والد اور دادا میں سے کسی کوبھی نہیں چھوڑا ہے، اگر صورتِ حال کچھ مختلف ہو تو تفصیل لکھ کر دوبارہ سوال کرلیا جائے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
وراثت کی تقسیم کے وقت اگر ماں یا باپ دونو ں میں سے کوئی ایک زندہ ہو اور وہ اپنے کسی بیٹا یا بیٹی کا حق ختم کرنا چاہے تو کیا انھیں یہ اختیار اللہ کی طرف سے حاصل ہے اوراس سے مرنے والے کے اوپر کسی قسم کے عذاب الہی کا تو کوئی امکان نہیں؟ (2) کیا شادی کے بعد بیٹیوں کا ورثہ ختم ہوجاتاہے؟ (3) کیا بیٹیاں اپنے ورثہ کے لیے کسی قسم کی قانونی کاروائی کا اختیار رکھتی ہیں؟ (4) اگر کسی جائیداد میں کسی بیٹے یا بٹی کا نام ہے تو شرعی حیثیت سے اس کا ورثہ کس طرح تقسیم ہوگا؟
226 مناظروالدین کے ساتھ رہتے ہوئے ذاتی پیسوں سے خرید کردہ جائداد کا حکم
440 مناظرکچھ عرصہ پہلے میرے والد کا انتقال ہوگیا تھا۔ ان کا ایک ہی بھائی تھا، یعنی میرے چچا۔ چچا نے ہمیں ہمارا حصہ دے دیا۔ اب چچا بھی انتقال کرگئے ہیں۔ ان کی کوئی اولاد نہیں ہے۔ پہلی بیوی مر چکی ہے۔ دوسری بیوی زندہ ہے۔ اب ان کے وارثوں میں ایک بیوی، تین بھتیجے دو بھتیجیاں ہیں۔ برائے کرم تقسیم بتادیں۔
322 مناظر