• معاملات >> وراثت ووصیت

    سوال نمبر: 36265

    عنوان: میرا سوال ہیں وصیت ک بارے مے.

    سوال: احمیعاد نے دو شادی کی پہلی بیبی سے چار بچے ہیں دو لڑکا اور دو لڑکی اور دوسری بیبی سے تین بچے ہیں احمیعاد نے وفات سے پہلے اپنی وصیت بنوائی جیش مے انہو نے اپنی دوسی بیبی کے بچوں کے نام سے اپنی زمیں کا ٩٠% حصہ کا واشاعت نامہ بنوا دیا اور ١٠% حصہ بنمی چھوڑ دیا تھا اب سوال یہ ہیں کی کیا احمیعاد کے پہلی بیوی کے بچوں کا حق واشیات کے ہے زمیں پر بنتا ہیں یا نہیں. دوسری بات یہ ہیں کی احمیعاد کی پہلی بیبی ایک مالدار عورت تھی انہو نے اپنی زمیں اپنے بچوں ک نام کر دی کیا اس زمیں مے احمیعاد یا اس کے دوسری بیبی کے بچوں کا حق بنتا ہے. احمیعاد نے اپنی پہلی بیبی کی دولت کو دیکھتے ہوئے دوسری بیبی کے بچوں کے نام اپنی زمیں لکھی تھی. Shukriya جواب کا منتظر جاوید Alam

    جواب نمبر: 36265

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی(د): 245=36-2/1433 وراث کے حق میں وصیت شرعاً معتبر نہیں ہوتی اس لیے احمد کی اپنی دوسری بیوی کی اولاد کے لیے وصیت کرنا کالعدم ہوگا، احمد کا کل ترکہ اس کے ورثہٴ شرعی کے درمیان حصص شرعی کے مطابق تقسیم ہوگا، دونوں بیویوں کی اولاد اس کے ورثہٴ شرعی میں داخل ہیں، شریعت کے مطابق وارثت تقسیم کرکے ہرایک کا حصہ متعین کرنے کے لیے ضروری ہے کہ آپ واضح کریں کہ احمد کے انتقال کے وقت اس کی دونوں بیویاں باحیات تھیں یا نہیں؟ نیز دوسری بیوی کی اولاد میں کتنے لڑکے ہیں اور کتنی لڑکیاں؟ نیز احمد کے انتقال کے وقت اس کے والدین یا ان میں سے کوئی ایک باحیات تھا یا نہیں؟ (۲) پہلی بیوی نے اپنی زمین اولاد کے صرف نام اگر کی تھی اولاد کو قبضہ دخل نہیں دیا تو وہ زمین اس کے انتقال کے بعد اس کا ترکہ بن کر حصص شرعی کے مطابق تقسیم ہوگا، اگر اس کے انتقال کے وقت اس کا شوہر احمد زندہ تھا تو احمد کو شوہری حصہ 1/4 ملے گا جو اس کے انتقال کے بعد اس کے تمام ورثہ میں تقسیم ہوگا، باقی 3/4 صرف پہلی بیوی کی اولاد کو ملے گا، دوسری بیوی کی اولاد اس میں حصہ دار نہ ہوگی اور اگر پہلی بیوی نے اولاد کو ہبہ کرکے ہرایک کو اپنے اپنے حصے پر قبضہ دخل دیدیا تھا تو ہبہ مکمل ہوگیا جس کو دیا وہ مالک ہوگیا، احمد کا اس میں کوئی حصہ نہیں ہے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند