• معاملات >> وراثت ووصیت

    سوال نمبر: 606905

    عنوان:

    وراثت کا حق جبری اور لازمی طور پر ثابت ہوتا ہے اس حق سے عاق یعنی محروم کرنے کا اختیار کسی کو نہیں ؟

    سوال:

    سوال : امید ہے آپ سب خیریت سے ہوں گے ، میرا سوال یہ ہے کہ میرے والد صاحب فوت ہو چکے ہیں انہوں نے اپنی حیات میں ایک آٹا چکی لگائی تھی جس کا کام اور آمدن الحمداللہ کافی ٹھیک تھی جو والد صاحب کی حیات میں سات آٹھ سال چلی ۔ باپ کی وفات کے بعد والدہ کا کہنا ہے کہ جو اختیار والد کے تھے وہ سب اختیار اب میرے پاس آ چکے ہیں میں جس کو چاہوں دوں ۔ جسکو چاہوں نہ دوں بلکہ ایک دفعہ تو میری ماں نے مجھے یہ بھی کہہ دیا تھا کہ میں آپ کو عاق بھی کرسکتی ہوں۔ مطلب میری مرضی ہے میں ( والد کی جائیداد میں سے ) کچھ دوں یا نہ دوں ۔ ہم پانچ بھائی ہیں میری والدہ صرف دو بھائیوں کو ساتھ لے کر چل رہی ہے ۔ والد صاحب گورنمنٹ ملازم بھی تھے والدہ نے ان کی تین سال کی پنشن بھی صرف دو بھائیوں میں ہی قسیم کر دی ۔ والدہ کو مستقل والد صاحب کی جو پنشن ملتی ہے وہ بھی اپنی مرضی سے ان دو تین بھائیوں میں ہی تقسیم کر دیتی ہیں ۔ آٹا چکی جو والد کی حیات میں لگائی گئی تھی اس کی آمدن بھی ان ہی دو بھائیوں میں تقسیم کرتی ہیں۔ والدہ کا کہنا ہے کہ جیسے آپ کا والد بااختیار تھا ایسے ہی میں بھی بااختیار ہوں ۔ میں بڑا بھائی ہوں مجھے اپنی والدہ سے کچھ بھی لینے کا لالچ نہیں بس مجھے یہ جاننا ہے کہ باپ کی وفات کے بعد( جیسے والد بااختیار ہوتا ہے ) بعین ہی وہی اختیار ماں کو ملتا ہے یا بڑا بیٹا بھی اختیار کا حق رکھتا ہے ۔ جبکہ حدیث میں آتا ہے کہ بڑے بھائی کا حق دوسرے چھوٹے بھائیوں پر ایسا ہے جیسے باپ کا حق اولاد پر، حق کبیر الإخوة علی صغیرہم کحق الوالد علی ولدہ (مراسیل أبی داود) (مشکاة) اور حدیث میں ہے کہ بڑا بھائی باپ کی طرح ہے (شعب الایمان، فصل بعد فصل فی حفظ حق الوالدین بعد موتھما، حدیث نمبر۷۶۹۴عن سعید بن العاص)

    جواب نمبر: 606905

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa : 283-256/D=04/1443

     (۱) والد صاحب نے جو آٹا چکی لگائی تھی اس کے مالک وہ خود ہی تھے تو ان کے انتقال کے بعد وہ ان کا ترکہ بن گیا جس میں سب ورثاء شرعی اپنے حصہ شرعیہ کے مطابق حق دار ہوئے۔ والدہ کا کہنا کہ سب اختیارات میرے پاس آگئے، میں جسے چاہوں دوں جسے چاہوں نہ دوں، غلط بات ہے۔ قرآن میں ہر وارث کا حصہ مقرر کرکے بتلا دیا گیا ہے اپنے اپنے حصے کے مطابق ہر وارث حقدار ہے والدہ 1/8 کی حقدار ہیں باقی والد کی اولاد لڑکے لڑکیوں کے درمیان للذکر مثل حظ الأنثیین کے مطاق تقسیم ہوگا۔

    (۲) وراثت کا حق جبری اور لازمی طور پر ثابت ہوتا ہے اس حق سے عاق (محروم) کرنے کا اختیار نہ والد کو تھا نہ اب والدہ کو ہے۔

    (۳) والد کی پنشن کی جو رقم ہے اس میں بھی تمام ورثاء حقدار ہیں؛ البتہ والدہ کو جو پنشن ملتی ہے اس کی مالک و مختار وہ تنہا ہیں جسے چاہیں دیں اور جس طرح چاہیں تصرف کریں ان کی مرضی۔ البتہ اولاد کو ہبہ کرنے کی صورت میں تمام اولاد کے درمیان برابر کرنا مستحب ہے۔ پس والد کے انتقال کے بعد جو کچھ والد کا ترکہ آٹا چکی، پنشن کی رقم اور دیگر زمین جائیداد وغیرہ ہے سب کے چالیس (40) حصے ہوکر پانچ (5) حصے بیوی کو اور سات سات (7-7) حصے ہر بیٹے کو ملیں گے۔

    کل حصے   =             40

    -------------------------

    بیوی         =             5

    بیٹا            =             7

    بیٹا            =             7

    بیٹا            =             7

    بیٹا            =             7

    بیٹا            =             7

    --------------------------------

    نوٹ:۔ یہ تقسیم اس تقدیر پر ہے کہ والد مرحوم کے والدین ان کی زندگی ہی میں فوت ہوچکے تھے اور ورثاء شرعی میں صرف بیوی اور پانچ بیٹے ہیں۔ اگر ورثاء کی تعداد اس سے مختلف ہوتو تقسیم مذکور کو کالعدم سمجھیں اور سب ورثاء شرعی کی صراحت کریں۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند