• معاملات >> وراثت ووصیت

    سوال نمبر: 158968

    عنوان: والد کی زندگی میں اُن کے مملوکہ مال و جائداد میں اولاد کا کوئی شرعی حصہ متعین نہیں ہوتا

    سوال: ہم لوگ دو بھائی اور ایک بہن ہیں، ماں کا انتقال ہوچکا ہے، والد صاحب وصیت کرنا چاہتے ہیں۔ وراثت میں ہم لوگوں کا حصہ کتنے فیصد ہوگا؟

    جواب نمبر: 158968

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa: 598-520/sd=6/1439

     وارث کے حق میں وصیت شرعا غیر معتبر ہوتی ہے اور والد کی زندگی میں اُن کے مملوکہ مال و جائداد میں اولاد کا کوئی شرعی حصہ متعین نہیں ہوتا ، والد صاحب کو زندگی میں اپنے مملوکہ اموال میں ہر طرح کے تصرف کا اختیار ہوتا ہے ، اگر والد صاحب زندگی ہی میں اولادکے درمیان اپنی جائداد تقسیم کرنا چاہیں، تو شرعا اس میں مضائقہ نہیں ؛ لیکن اس صورت میں بہتر یہ ہے کہ سب کو برابر برا بر دے کر مالک و قابض بنادیں ، یعنی بیٹے اور بیٹی کو برابر برابر دیں ، لہذا صورت مسئولہ میں اگر آپ کے والد زندگی ہی میں اپنا مملوکہ مال تقسیم کرنا چاہیں، تو آپ دو بھائیوں اور ایک بہن کو برا بربرابر حصہ دے کر مالک و قابض بنادیں اور اگر وصیت سے مراد انتقال کے بعد شرعی حصہ کے بقدر ترکہ کی تقسیم کی تاکید کرنا ہے ، تو اس میں بھی مضائقہ نہیں ، ایسی صورت میں اگر اُن کے انتقال کے وقت ورثاء میں دو بیٹے اور ایک بیٹی باحیات ہونگی، تو بعد ادائے حقوق متقدمہ علی الارث و عدم موانع ارث کل ترکہ پانچ حصوں میں تقسیم ہو کر دو دو حصے دونوں بیٹوں میں سے ہر ایک کو اور ایک حصہ ایک بیٹی کو ملے گا ۔ 


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند