معاملات >> وراثت ووصیت
سوال نمبر: 24945
جواب نمبر: 2494531-Aug-2020 : تاریخ اشاعت
بسم الله الرحمن الرحيم
فتوی(ھ): 1761=1289-9/1431
یہ وصیت شرعاً درست نہ ہوئی۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
جناب میرے نانا جان کا نام محمد عمر عبداللطیف ہے۔ ان کی عمر ۸۵/سال ہوچکی ہے۔ کان سے کم سنتے ہیں۔ سانس پھولنے کی بیماری ہے۔ ان کے تین بیٹے اور پانچ بیٹیاں ہیں جن میں ایک بیٹے اور ایک بیٹی کی شادی نہیں ہوئی ہے۔ ان کے پاس تیس پاور لوم اور ایک گھر ہے۔ گھر کو بیچنے پر ۳۰۰۰۰۰/روپیہ ملتا ہے۔ ساری اولاد بٹوارہ چاہتی ہیں۔ (۱)کیا شریعت کے مطابق بٹوارہ ممکن ہے؟ (۲) اگر بٹوارہ ہو سکتاہے تو کس حساب سے ہو گا اور کس کو کتنا ملے گا؟ (۳) کیامیرے نانا اپنی زندگی میں کسی ایک کو اپنے حصہ کا مالک بنا سکتے ہیں؟ (۴) میرے نانا نے ایک آدمی کو پنچ بنا کر کہ جو یہ کہیں گے مجھے منظور ہوگا۔ اس آدمی نے ۳۰/ لوم میں سے تین لوم بیٹے کو اور تین لوم بیٹی کے حساب سے برابر بانٹ دئے اور چھ لوم نانا کو دے دئے۔ اب گھر کی قیمت میں ۳۵/فیصد نانا کو دے کر باقی کے پیسے بیٹوں اوربیٹیوں میں برابر برابر بانٹنا چاہتے ہیں۔ کیا یہ صحیح فیصلہ ہوا ہے؟ مہربانی کرکے مدد کیجئے۔
1420 مناظردادا نے وصیت كی كہ میرے پوتے كا بیٹوں كی طرح جائداد میں حصہ ہے؟
2083 مناظرمفتی صاحب میرا سوال ہے کہ اگر کوئی والد
اپنی اولاد کو اپنی پراپرٹی سے بے دخل کردے تو شرعاً یہ صحیح ہے یا نہیں؟ والد نے
ستر فیصد پراپرٹی وراثت میں (دادا دادی )سے ملی ہے اور تیس فیصد والد نے خود بنائی
ہے۔ ایسی صورت حال میں کیا اولاد کا اپنے دادا دادی سے وراثت میں ملی پراپرٹی پر
کچھ حق ہے کہ نہیں؟ برائے کرم شرعی قانون کی روشنی میں واضح کریں۔