• معاملات >> وراثت ووصیت

    سوال نمبر: 5254

    عنوان:

    جناب میرے نانا جان کا نام محمد عمر عبداللطیف ہے۔ ان کی عمر ۸۵/سال ہوچکی ہے۔ کان سے کم سنتے ہیں۔ سانس پھولنے کی بیماری ہے۔ ان کے تین بیٹے اور پانچ بیٹیاں ہیں جن میں ایک بیٹے اور ایک بیٹی کی شادی نہیں ہوئی ہے۔ ان کے پاس تیس پاور لوم اور ایک گھر ہے۔ گھر کو بیچنے پر ۳۰۰۰۰۰/روپیہ ملتا ہے۔ ساری اولاد بٹوارہ چاہتی ہیں۔ (۱)کیا شریعت کے مطابق بٹوارہ ممکن ہے؟ (۲) اگر بٹوارہ ہو سکتاہے تو کس حساب سے ہو گا اور کس کو کتنا ملے گا؟ (۳) کیامیرے نانا اپنی زندگی میں کسی ایک کو اپنے حصہ کا مالک بنا سکتے ہیں؟ (۴) میرے نانا نے ایک آدمی کو پنچ بنا کر کہ جو یہ کہیں گے مجھے منظور ہوگا۔ اس آدمی نے ۳۰/ لوم میں سے تین لوم بیٹے کو اور تین لوم بیٹی کے حساب سے برابر بانٹ دئے اور چھ لوم نانا کو دے دئے۔ اب گھر کی قیمت میں ۳۵/فیصد نانا کو دے کر باقی کے پیسے بیٹوں اوربیٹیوں میں برابر برابر بانٹنا چاہتے ہیں۔ کیا یہ صحیح فیصلہ ہوا ہے؟ مہربانی کرکے مدد کیجئے۔

    سوال:

    جناب میرے نانا جان کا نام محمد عمر عبداللطیف ہے۔ ان کی عمر ۸۵/سال ہوچکی ہے۔ کان سے کم سنتے ہیں۔ سانس پھولنے کی بیماری ہے۔ ان کے تین بیٹے اور پانچ بیٹیاں ہیں جن میں ایک بیٹے اور ایک بیٹی کی شادی نہیں ہوئی ہے۔ ان کے پاس تیس پاور لوم اور ایک گھر ہے۔ گھر کو بیچنے پر ۳۰۰۰۰۰/روپیہ ملتا ہے۔ ساری اولاد بٹوارہ چاہتی ہیں۔

    (۱)کیا شریعت کے مطابق بٹوارہ ممکن ہے؟

    (۲) اگر بٹوارہ ہو سکتاہے تو کس حساب سے ہو گا اور کس کو کتنا ملے گا؟

    (۳) کیامیرے نانا اپنی زندگی میں کسی ایک کو اپنے حصہ کا مالک بنا سکتے ہیں؟

    (۴) میرے نانا نے ایک آدمی کو پنچ بنا کر کہ جو یہ کہیں گے مجھے منظور ہوگا۔ اس آدمی نے ۳۰/ لوم میں سے تین لوم بیٹے کو اور تین لوم بیٹی کے حساب سے برابر بانٹ دئے اور چھ لوم نانا کو دے دئے۔ اب گھر کی قیمت میں ۳۵/فیصد نانا کو دے کر باقی کے پیسے بیٹوں اوربیٹیوں میں برابر برابر بانٹنا چاہتے ہیں۔ کیا یہ صحیح فیصلہ ہوا ہے؟ مہربانی کرکے مدد کیجئے۔

    جواب نمبر: 5254

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی: 800=734/ د

     

    (۱) عبداللطیف صاحب ہوش و حواس میں بٹوارہ کا فیصلہ کرتے ہیں یا کسی کو بٹوارہ کردینے کا ذمہ دار بنادیتے ہیں تو جائز ہے۔

    (۲) اپنی ضرورت کے بقدر جو رکھنا چاہیں اسے بچالیں، باقی لڑکے اور لڑکیوں کے درمیان برابر تقسیم کردیں۔

    (۳) کسی ایک وارث کو مالک بنانا اور دوسروں کو محروم کرنا بغیر کسی وجہ شرعی کے سخت گناہ ہے، لیکن اگر مالک بناکر قبضہ کرادیں گے تو شخص موہوب لہ مالک ہوجائے گا۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند