معاشرت >> ماکولات ومشروبات
سوال نمبر: 600711
بعد سلام سوال یہ ہے کہ کیا الو کھانا حلال ہے !کسی نے مجھے ایک پوسٹ بھیجا ہے جس میں لکھاہے کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک الو حلال ہے لہذا اس کے کھانے میں کوئی حرج نہیں ہے (ردالمحتار۔کتاب الذبائح۔۴۴۴)برائے مہربانی اس بارے میں ہماری راہنمائی فرمائیں۔
جواب نمبر: 600711
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa : 102-93/D=03/1442
بعض کتابوں میں اگرچہ اُلّو کی حلت کا جزئیہ منقول ہے، (مثلاً شامی: ۹/۴۴۴، ہندیہ: ۵/۳۳۴) لیکن اس کے بارے میں حضرت گنگوہی فرماتے ہیں: ”چیل، اُلّوحرام ہے“ (باقیات قتاوی رشیدیہ، ص: ۳۶۳، سوال: ۶۶۶) اور اس کی وجہ حضرت نے دوسری جگہ یہ بتلائی ہے کہ: ”بوم حلال نہیں ہے، اور جن فقہاء نے اس کو حلال لکھا ہے ان کو اس کے حال کی خبر نہیں ہوئی“ (تالیفاتِ رشیدیہ، ص: ۴۵۱، ملفوظات) مراد یہ ہے کہ بعض حضرات نے اُلّو کو سبزی خور پرندہ سمجھ کر حلال کہا، حالانکہ وہ شکاری جانور ہے، جو اپنے پنجوں سے چھوٹے پرندوں کا شکار کرتا ہے۔ چنانچہ مولانا ظفر احمد عثمانی نے بھی امداد الاحکام میں اُلّو کی حرمت کا فتوی دیا ہے۔ (امداد الاحکام: ۴/۳۰۳، باب الأکل والشرب من کتاب الحظر والإباحة) ۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند