متفرقات >> دعاء و استغفار
سوال نمبر: 8997
عرض یہ ہے کہ بنگلور میں ہماری ایک مسجد میں تقریباً دومہینوں سے فرض نمازوں کے بعد سری دعا ہوتی ہے۔ الحمد للہ ذمہ دار مسجد کواس بات کا علم ہے کہ جہری دعا اپنی خارجی خرابیوں کی وجہ سے بدعت ہے، اس لیے ذہن سازی کے بعد سری دعا پر آمادہ ہوگئے، لیکن افسوس کہ چند فتنہ انگیزوں کی طرف سے فساد اور انتشار کا امکان ہے۔ بنا بریں ذمہ داران مسجد دعاء جہری کا فیصلہ لینے والے ہیں جو اچھا نہیں ہوگا۔ خوبی کی بات یہ ہے کہ ذمہ دار جو بھی فیصلہ لیتے ہیں کوئی اس کو بدل نہیں سکتا محض باہر کے لوگوں کی وجہ سے اور انتشار کی وجہ سے فیصلہ بدلنے پر آمادہ ہوگئے ہیں۔ کیا اس طرح کی کاروائی ذمہ داروں کی طرف سے درست ہے؟ اللہ نہ کرے اگر ایک اندوہناک فیصلہ لیتے ہیں تو امام مسجد کو کیا کرنا چاہیے؟ اپنے مفید مشوروں سے نواز کر ممنون فرمائیں۔ نیز ذمہ داروں کااس طریقہ سے فیصلہ کرنا جب کہ خالص شریعت کا مسئلہ ہے اور ذمہ داروں میں کوئی بھی عالم دین نہیں ہے کیسا ہے؟شہر کے ایک دینی ادارہ سبیل الرشاد سے (قریب کی وجہ سے) دعاء سری کے تعلق سے پوچھا گیا ،تو جواب ملا کہ انتشار نہیں ہونا چاہیے اس لیے جہری دعا ہی کریں۔ اب آپ ہی فرمائیں کہ کیا کیا جائے؟ ایک وضاحت بھی کردوں کہ چار دنوں بعد اجلاس ہونے والا ہے جس میں جہری دعا کا فیصلہ کیا جائے گا۔ آپ سے درخواست ہے کہ اجلاس سے پہلے آپ کا مدلل اور مفصل جواب مل جائے تو فیصلہ کو روکا جاسکتا ہے۔ آپ کا فتوی بہت مفید ثابت ہوگا۔ بنا بریں وقت کی نزاکت کو سامنے رکھتے ہوئے فوراً جواب مرحمت فرماکر احیاء سنت میں تعاون فرماویں۔
عرض یہ ہے کہ بنگلور میں ہماری ایک مسجد میں تقریباً دومہینوں سے فرض نمازوں کے بعد سری دعا ہوتی ہے۔ الحمد للہ ذمہ دار مسجد کواس بات کا علم ہے کہ جہری دعا اپنی خارجی خرابیوں کی وجہ سے بدعت ہے، اس لیے ذہن سازی کے بعد سری دعا پر آمادہ ہوگئے، لیکن افسوس کہ چند فتنہ انگیزوں کی طرف سے فساد اور انتشار کا امکان ہے۔ بنا بریں ذمہ داران مسجد دعاء جہری کا فیصلہ لینے والے ہیں جو اچھا نہیں ہوگا۔ خوبی کی بات یہ ہے کہ ذمہ دار جو بھی فیصلہ لیتے ہیں کوئی اس کو بدل نہیں سکتا محض باہر کے لوگوں کی وجہ سے اور انتشار کی وجہ سے فیصلہ بدلنے پر آمادہ ہوگئے ہیں۔ کیا اس طرح کی کاروائی ذمہ داروں کی طرف سے درست ہے؟ اللہ نہ کرے اگر ایک اندوہناک فیصلہ لیتے ہیں تو امام مسجد کو کیا کرنا چاہیے؟ اپنے مفید مشوروں سے نواز کر ممنون فرمائیں۔ نیز ذمہ داروں کااس طریقہ سے فیصلہ کرنا جب کہ خالص شریعت کا مسئلہ ہے اور ذمہ داروں میں کوئی بھی عالم دین نہیں ہے کیسا ہے؟شہر کے ایک دینی ادارہ سبیل الرشاد سے (قریب کی وجہ سے) دعاء سری کے تعلق سے پوچھا گیا ،تو جواب ملا کہ انتشار نہیں ہونا چاہیے اس لیے جہری دعا ہی کریں۔ اب آپ ہی فرمائیں کہ کیا کیا جائے؟ ایک وضاحت بھی کردوں کہ چار دنوں بعد اجلاس ہونے والا ہے جس میں جہری دعا کا فیصلہ کیا جائے گا۔ آپ سے درخواست ہے کہ اجلاس سے پہلے آپ کا مدلل اور مفصل جواب مل جائے تو فیصلہ کو روکا جاسکتا ہے۔ آپ کا فتوی بہت مفید ثابت ہوگا۔ بنا بریں وقت کی نزاکت کو سامنے رکھتے ہوئے فوراً جواب مرحمت فرماکر احیاء سنت میں تعاون فرماویں۔
جواب نمبر: 8997
بسم الله الرحمن الرحيم
فتوی: 2322=1912/ب
حدیث شریف میں آیا ہے خیر الدعاء الخَفِيُّ یعنی بہترین دعاوہ ہے جو آہستہ کی جائے۔ قرآن میں ہے إذ نَادٰی رَبَّہُ نِدَاءً خَفِیًّا یعنی زکریا علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے آہستہ آواز میں دعا کی۔ ہرمسلمان کو قرآن وحدیث کے تابع ہوکر رہنا اور کام کرنا چاہیے۔ انتشار پھیلانے والے فتنہ انگیز لوگ ہیں۔ ان لوگوں کا جہری دعا کے لیے فیصلہ لینا صحیح نہیں ہے، ہندوستان میں جو اہل حق کے علمی دینی مرکز ہیں۔ دارالعلوم دیوبند، مظاہرعلوم سہارن پور، یہاں ہمیشہ سے نماز کے بعد آہستہ دعا ہوتی چلی آرہی ہے۔ ادارہ سبل الرشاد کا فتویٰ صحیح نہیں ہے، انھوں نے قرآن وحدیث کے مقابلے میں اپنی رائے کو ترجیح دی ہے۔ آپ لوگ ہرعمل کو قرآن وحدیث کے مطابق بنانے کی کوشش کریں اور اسی پر مضبوطی کے ساتھ جمے رہیں۔ سارے فتنے آئندہ ختم ہوجائیں گے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند