• عبادات >> ذبیحہ وقربانی

    سوال نمبر: 174817

    عنوان: مدارس میں اجتماعی قربانی کے بعد بچنے والی رقم کا کیا کیا جائے؟

    سوال: آجکل بحمد اللہ ہمارے دیار میں مدارس کی جانب سے اجتماعی قربانی کا انتظام کیا جاتا ہے اور ایام قربانی کے مہینہ ڈیڑھ مہینہ پہلے سے مساجد میں اشتہارات چسپاں کئے جاتے ہیں کہ ایک حصہ ۱۲۰۰ کا اور پورا جانور ۸۴۰۰ کا ۔ جوشخص اپنا کوئی حصہ یا جانور لکھوانا چاہتا ہے تو وہ ذمہ داران مدرسہ کو پیسے جمع کرتا ہے اور ان سے ایک رسید وصول کرتا ہے جس میں لکھا ہوتا ہے کہ جانور کی قیمت اور اس پر لگنے والے ضروری صرفہ کے بعد بھی قیمت بچے گی جو مدرسہ کے کاموں میں استعمال کی جائے گی۔ اب بالفرض اگر قربانی کے تمام اخراجات کی ادائیگی کے بعد بھی ایک جانور پر آٹھ سو، ہزار بارہ یا پندرہ سو روپے بچتے ہوں تو ان کا مدرسہ میں صرف کرنا کیسا ہے؟۔ چونکہ بظاہرتو اس رسید پڑھنے والے کو بادیٴ النظر میں یہی خیال ہوتا ہوگا کہ تمام اخراجات کی ادائیگی کے بعد کچھ سو، پچاس روپے بچ جاتے ہوں گے۔ خلاصہ یہ کے رسید کے اس جملے سے "جانور کی قیمت اور اس پر لگنے والے ضروری صرفہ کے بعد بھی قیمت پچے گی جو مدرسہ کے کاموں میں استعمال کی جائے گی۔" بقیہ تمام رقم لینے کاحق ہوگا؟ نوٹ:- چونکہ بہت سے جانور ایک ساتھ لئے جاتے ہیں، اس لئے قیمت کم ہوتی ہے، اگر یہی جانور قربانی کرنے والوں کے گاؤں کے اندر لئے جاتیں تو قربانی کا صرفہ اس سے بھی زیادہ ہوتا؟ اس سوال کا جواب عنایت فرما کر شکریہ کا موقع عنایت فرمائیں، نیز جواب اگر بحوالہ ہو تو نور علی نور۔ جزاکم اللہ خیرا واحسن الجزاء فی الدارین

    جواب نمبر: 174817

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa : 294-367/M=04/1441

    جو شخص قربانی کا ایک حصہ یا پورا جانور لکھوانا چاہتا ہے اس کے پیسے جمع لینے سے پہلے اُسے پوری بات کھول کر بتادی جائے کہ ”جانور کی قیمت اور اس پر لگنے والے ضروری صرفہ کے بعد جو بھی رقم بچتی ہے خواہ وہ آٹھ سو، ہزار، بارہ سو ہو یا اس سے کم ہو، وہ مدرسہ کے کاموں میں استعمال کرلی جائے گی“ اس وضاحت کے بعد بھی وہ اگر بخوشی پیسے جمع کرتا ہے تو ٹھیک ہے اور بقیہ رقم مدرسہ کی ضروریات میں خرچ کی جا سکتی ہے لیکن یہ طریقہ کار درست نہیں کہ حصے کے پیسے پہلے جمع کر لیے جائیں اور رسید کاٹ کر دیدی جائے اور پھر رسید کے ذریعہ اسے پتہ چلے کہ بقیہ رقم مدرسہ کے کاموں میں استعمال کی جائے گی۔ اور پھر اسے یہ پتہ چلے کہ بقیہ رقم سو، پچاس نہیں بلکہ ہزار، بارہ سو ہے تو بہت ممکن ہے کہ اس کی جانب سے اجازت و خوش دلی نہ ہو ، اس لئے مذکورہ طریقہ کار سے بچنا چاہئے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند