• معاملات >> سود و انشورنس

    سوال نمبر: 149378

    عنوان: کیا ہم بینک کی سودی رقم کو اپنے غریب رشتہ داروں کو دے سکتے ہیں؟

    سوال: میں سودی رقم کے بارے میں جاننا چاہتاہوں، کیا ہم بینک کی سودی رقم کو اپنے غریب رشتہ داروں کو دے سکتے ہیں؟یا کیا ہم ان کے بچوں کی شادی کے لیے یہ رقم سونے کی شکل میں دے سکتے ہیں؟یا کیا ہم کسی بھی غریب کی شادی میں یہ پیسہ دے سکتے ہیں؟

    جواب نمبر: 149378

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa: 526-490/N=6/1438

    (۱): جی ہاں ! آپ سود کی رقم اپنے غریب رشتہ داروں کو دے سکتے ہیں؛ البتہ سود کی رقم کسی غریب کو دیتے وقت ثواب کی نیت نہ کی جائے ، صرف حرام مال کے وبال سے بچنے کی نیت کی جائے۔ ویردونہا علی أربابہا إن عرفوہم، وإلا تصدقوا بہا؛ لأن سبیل الکسب الخبیث التصدق إذا تعذر الرد علی صاحبہ (رد المحتار، کتاب الحظر والإباحة، باب الاستبراء وغیرہ ، فصل فی البیع ،۹: ۵۵۳،ط: مکتبة زکریا دیوبند)،قال شیخنا: ویستفاد من کتب فقہائنا کالہدایة وغیرہا: أن من ملک بملک خبیث، ولم یمکنہ الرد إلی المالک، فسبیلہ التصدقُ علی الفقراء…،قال:والظاھر إن المتصدق بمثلہ ینبغي أن ینوي بہ فراغ ذمتہ، ولا یرجو بہ المثوبة(معارف السنن، أبواب الطہارة، باب ما جاء: لا تقبل صلاة بغیر طہور، ۱: ۳۴، ط: المکتبة الأشرفیة دیوبند)۔

    (۲): جی ہاں ! آپ غریب رشتہ داروں کو ان کے بچوں کی شادی کے لیے سود کی رقم سونے کی شکل میں دے سکتے ہیں؛ البتہ دو باتوں کا خیال رکھنا ضروری ہے؛ ایک یہ کہ رشتہ داروں میں جس کو سود کی رقم کا مالک بنایا جائے، وہ اس وقت غریب ہو، مالدار نہ ہو، ورنہ اسے سود یا زکوة کی رقم دینا درست نہ ہوگا۔ دوسری بات یہ ہے کہ بہ یک مشت سونے یا چاندی کی صرف اتنی مقدار دی جائے جس سے وہ صاحب نصاب نہ بنے ورنہ ادائیگی تو درست ہوجائے گی؛ البتہ بہ یک مشت اتنی مقدار دینا مکروہ ہوگا۔ قال محمد فی الأصل إذا أعطی من زکاتہ مأتي درہم أو ألف درہم إلی فقیر واحد، فإن کان علیہ دین مقدار ما دفع إلیہ، وفی الخانیة: أو یبقی دون المائتین،م : أو کان صاحب عیال یحتاج إلی الإنفاق علیہم فإنہ یجوز ولایکرہ، وإن لم یکن علیہ دین ولا صاحب عیال، فإنہ یجوز عند أصحابنا الثلاثة ویکرہ الخ (الفتاوی التاتار خانیة،کتاب الزکاة ، الفصل الثامن ۲: ۲۲۱، ۲۲۲،ط: مکتبة زکریا دیوبند)،(وکرہ إعطاء فقیر نصابا ) أو أکثر (إلا إذا کان) المدفوع إلیہ (مدیوناً، أو)کان (صاحب عیال) بحیث (لو فرقہ علیہم لایخص کلا)، أو لا یفضل بعد دینہ (نصاب) فلا یکرہ فتح (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الزکاة، باب المصرف ۳: ۳۰۳، ۳۰۴، ط: مکتبة زکریا دیوبند)، قولہ:(وکرہ إعطاء فقیر نصابا أو أکثر): ……دفع ما یکمل النصاب کدفع النصاب، قال فی النھر: والظاھر أنہ لا فرق بین کون النصاب نامیاً أو لا حتی لو أعطاہ عروضاً تبلغ نصاباً فکذلک ولا بین کونہ من النقود أو من الحیوانات الخ۔(رد المحتار)،وانظر مراقی الفلاح وحاشیتہ للطحطاوي (ص ۷۲۱، ۷۲۲، ط: دار الکتب العلمیة بیروت) أیضاً۔

    (۳): جی ہاں! آپ سود کی رقم کسی غریب کو اس کی یا اس کے کسی بچے کی شادی کے لیے دے سکتے ہیں؛ البتہ غریب یا اس کی اولاد کو جب سود کی رقم دی جائے تو اس وقت اس کا غریب ومستحق ہونا ضروری ہے( جیسا کہ اوپر ذکر ہوا)، اگر سود کی رقم دیتے وقت وہ غریب نہ ہوا یا کچھ رقم دینے کے بعد وہ غریب نہیں رہا تو اسے سودکی رقم دینا جائز نہ ہوگا اور آج کل شادی کے لیے عام طور پر لوگ ہزاروں ؛ بلکہ لاکھوں کا خرچہ کرتے ہیں؛ لہٰذا غریب لوگوں کو شادی کے لیے سود یا زکوة کی رقم دیتے وقت غربت کی شرط کا خیال رکھنا ضروری ہے ۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند