• معاملات >> سود و انشورنس

    سوال نمبر: 4659

    عنوان:

    ہم اپنے شہر سے دوسرے شہر تک اپنی گاڑی میں مال لے جاتے ہیں۔ مال ایک جگہ اتار کر پھرکرایہ لینے کے لیے کچھ دور آفس جانا ہوتا ہے۔پر آفس والے کبھی تین دن بھی تاخیر کرکے ہمارا وقت ضائع کرتے ہیں۔ اگر ہم کسی کو رسید دے کر کہیں کہ (تین دن بعد آفس جاکر دس ہزار روپیہ لے لینا، اس کے بدلے میں ہمیں ابھی سے تم ساڑھے نو ہزار روپیہ دے دو) اس طرح ہمارا یہ فائدہ ہوگا کہ ہمار ا وقت بچ جائے گااور اس آدمی کا یہ فائدہ ہوگا کہ تین دن بعد تھوڑی تکلیف کرکے آفس جاکر پیسہ لے گا تو اس کو پانچ سو روپیہ کا فائدہ ہوگا۔ کیا یہ جائز ہے؟

    سوال:

    ہم اپنے شہر سے دوسرے شہر تک اپنی گاڑی میں مال لے جاتے ہیں۔ مال ایک جگہ اتار کر پھرکرایہ لینے کے لیے کچھ دور آفس جانا ہوتا ہے۔پر آفس والے کبھی تین دن بھی تاخیر کرکے ہمارا وقت ضائع کرتے ہیں۔ اگر ہم کسی کو رسید دے کر کہیں کہ (تین دن بعد آفس جاکر دس ہزار روپیہ لے لینا، اس کے بدلے میں ہمیں ابھی سے تم ساڑھے نو ہزار روپیہ دے دو) اس طرح ہمارا یہ فائدہ ہوگا کہ ہمار ا وقت بچ جائے گااور اس آدمی کا یہ فائدہ ہوگا کہ تین دن بعد تھوڑی تکلیف کرکے آفس جاکر پیسہ لے گا تو اس کو پانچ سو روپیہ کا فائدہ ہوگا۔ کیا یہ جائز ہے؟

    جواب نمبر: 4659

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی: 642=600/ ل

     

    یہ معاملہ شرعا ناجائز و حرام ہے کیونکہ روپئے کا تبادلہ روپئے سے ہورہا ہے، ایسے وقت میں کمی زیادتی سود کہلاتا ہے، اور سودی معاملہ کرنا بنص قطعی حرام ہے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند