• معاملات >> وراثت ووصیت

    سوال نمبر: 153413

    عنوان: باپ کی میراث تقسیم ہونے سے پہلے بیٹا فوت ہوگیا

    سوال: صورت مسئلہ یہ ہے کہ سنہ ۲۰۰۰ عیسوی میں زید کا انتقال ہوگیا تھا۔ زید نے ترکہ میں اپنے اس مکان کے علاوہ جس میں وہ اپنے بیوی اور بچوں کے ساتھ رہائش پذیر تھا، ایک پچاس لاکھ کی مالیت کا دوسرا مکان بھی چھوڑا تھا جس میں کوئی رہائش پذیر نہیں تھایعنی مکان بند پڑا تھا اور تاحال بند ہے ۔ زید کے پسماندگان میں ایک بیوی اور چار بیٹے تھے ۔ زید کے انتقال کے وقت زید کے چاروں بیٹے غیر شادی شدہ تھے ۔ زید کا ترکہ وارثین میں تقسیم نہیں ہوا۔ اس کے بعد سنہ دوہزار سولہ میں زید کے بڑے بیٹے عمرو کا انتقال ہوگیا جس نے پسماندگان میں دو نابالغ بیٹے اور دو نابالغ بیٹیاں چھوڑی ہیں یعنی یہ چار نابالغ بچے زید کے سگے پوتے اور پوتیاں ہیں ۔ اب آج اگر زید کا ترکہ تقسیم کیا جائے تو دریافت طلب امر یہ ہے کہ: کیا زید کے ان نابالغ پوتے اور پوتیوں کو بھی زید کے ترکہ میں سے حصہ دیا جائے گا جن کے باپ عمرو کا انتقال ہوچکا ہے ؟ اگر ان دو مکانات کی کل مالیت ایک کروڑ روپیہ ہو تو مکانات بیچ کر کس وارث کے حصہ میں کتنا مال جائے گا؟ برائے مہربانی وضاحت فرمادیجئے ، کرم ہوگا۔ انٹرنیٹ پر شائع کرنے کی صورت میں نام مخفی رکھا جائے ۔

    جواب نمبر: 153413

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa: 1280-1313/M=11/1438

    صورت مسئولہ میں زید کے پوتے پوتیاں براہ راست زید کے ترکہ کے وارث نہیں، البتہ عمرو کو جو حصہ زید کے ترکہ سے ملے گا اس حصے میں عمرو کی اولاد وارث ہوگی، زید کا متروکہ مال از روئے شرع ۳۲سہام میں منقسم ہوگا جن میں سے ۴/ حصے زید کی بیوی کو اور ۷، ۷حصے چاروں لڑکوں میں سے ہرایک کو ملیں گے پھر عمرو کا حصہ اسکے شرعی ورثہ میں منقسم ہوجائے گا عمرو کے ترکہ کی شرعی تقسیم جاننے کے لیے یہ وضاحت مطلوب ہے کہ اس کی بیوی اور والدہ حیات ہیں یا نہیں؟ واضح فرماکر سوال کرسکتے ہیں، زید مرحوم کے ترکہ کی تقسیم کا نقشہ:

    زوجہ  =  4

    ابن  =  7

    ابن  =  7

    ابن   =  7

    ابن  =  7


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند