• معاملات >> وراثت ووصیت

    سوال نمبر: 607643

    عنوان: وراثت سے متعلق تین سوال

    سوال:

    زید کی شادی راشدہ سے ہوئی، جس سے اس کے تین بچے ہوئے ، راشدہ کی وفات کے بعد زید نے ماجدہ سے دوسری شادی کی، جس سے ایک بیٹا ہوا، زید کے انتقال کے بعد وراثت تقسیم نہیں ہوئی، اب زید کی دوسری بیوی ماجدہ کا بھی انتقال ہو چکا ہے اور زید کے چاروں بچے زمین جائیداد تقسیم کرنا چاہتے ہیں، سوال یہ ہے کہ زید کی جائیداد میں دوسری بیوی ماجدہ کا حصہ لگایا جائے گا یا نہیں؟ اگر حصہ لگایا جائے گا تو اس حصہ کا مستحق کون ہوگا صرف ماجدہ کا ایک لڑکا یا اس کے تین سوتیلے بیٹے بھی وارث بنیں گے ؟ ہمارے یہاں مشہور ہے کہ گھراری( گھر بنانے لائق) زمین میں بیٹیوں کا حصہ نہیں ہوتا ہے ، صرف کھیت کی زمین میں حصہ ہوتا ہے کیا ایسا سوچنا درست ہے ؟ برائے مہربانی دلائل شرعیہ کے ساتھ جلد از جلد جواب عنایت فرمائیں..... اللہ آپ حضرات کو دنیا و آخرت میں کامیابی و کامرانی عطا فرمائے آمین ثم آمین ۔

    جواب نمبر: 607643

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:145-100/H-Mulhaqa=4/1443

     (۱، ۲): صورت مسئولہ میں جب زید کی وفات پر اُس کی دوسری بیوی: ماجدہ باحیات تھی تو بلاشبہ زید کے ترکہ میں اُس کا (آٹھواں) حصہ لگایا جائے گا ، پھر اگر ماجدہ نے اپنی وفات پر صرف ایک وارث (:ایک بیٹا) چھوڑا ہے، یعنی: ماجدہ نے اپنے ماں، باپ، دادا، دادی اور نانی میں سے کسی کونہیں چھوڑا ہے، اِن سب کا انتقال ماجدہ سے پہلے ہی ہوچکا ہے تو ماجدہ کا سارا ترکہ (بہ شمول شوہر: زید سے ملاہوا حصہ) صرف اُس کے بیٹے کو ملے گا، مرحوم شوہر کے جو بیٹے راشدہ سے ہیں، اُن کا ماجدہ کے ترکہ میں کچھ حصہ نہ ہوگا؛ کیوں کہ ان کا اپنی سوتیلی ماں (والد کی دوسری بیوی) سے وراثت والا کوئی رشتہ نہیں ہے۔

    (۳): آپ کے علاقے میں جو مشہور غلط ہے، ماں باپ کی چھوڑی ہوئی ہر ہر چیز میں بیٹوں کی طرح بیٹیوں کا بھی حصہ ہوتا ہے، یعنی: کھیت کی زمین کی طرح گھراری (سکنائی یا گھر بنانے کے لائق )زمین بھی بیٹیوں کا حصہ ہوتا ہے۔

    قال اللّٰہ تعالٰی: ”للرجال نصیب مما ترک الوالدٰن والأقربون وللنساء نصیب مما ترک الوالدٰن والأقربون مما قل منہ أو کثر نصیبا مفروضاً“ (سورة النساء، رقم الآیة: ۷)۔

    الترکة تتعلق بھا حقوق أربعة:جھاز المیت ودفنہ، والدین، والوصیة، والمیراث … کذا فیالمحیط (الفتاوی الھندیة،کتاب الفرائض، الباب الأول في تعریفھا وفي ما یتعلق بالترکة، ۶:۴۴۷، ط: المطبعة الکبری الأمیریة، بولاق، مصر)۔

    الترکة فی الاصطلاح ما ترکہ المیت من الأموال صافیاً عن تعلق حق الغیر بعین من الأموال کما في شروح السراجیة (رد المحتار، کتاب الفرائض،۱۰:۴۹۳، ط: مکتبة زکریا دیوبند)۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند