عنوان: میرا نام عنبرین خان ہے، ہم چار بھائی اور چار بہنیں ہیں، میرے والد کا انتقال اکتوبر2010 میں ہوا ہے، میری والدہ حیات ہیں، ہم چاروں بہنیں شادی شدہ ہیں۔ میرا مسئلہ یہ ہے کہ میری دو بہنیں اپنا حصہ مانگ رہی ہیں اپنے والد کے گھر میں سے ، ہم جس گھرمیں شادی سے پہلے رہتے تھے وہ ایک ہی گھر ہے، بھائیوں کا کہنا یہ ہے کہ حصہ تو اس جائداد کا ہوتاہے جس کا باپ بہت زرو زمین چھوڑ جاتاہے، گھر ہمارا اپنا ذاتی ہے، بہنوں کا یہ کہنا کہ ہمارے والد کے گھر میں ہمارا حصہ بنتاہے جو کہ ہمیں شرعی طورر پر ملنا چاہئے۔ اب آپ اس مسئلے کو حل کریں۔
سوال: میرا نام عنبرین خان ہے، ہم چار بھائی اور چار بہنیں ہیں، میرے والد کا انتقال اکتوبر2010 میں ہوا ہے، میری والدہ حیات ہیں، ہم چاروں بہنیں شادی شدہ ہیں۔ میرا مسئلہ یہ ہے کہ میری دو بہنیں اپنا حصہ مانگ رہی ہیں اپنے والد کے گھر میں سے ، ہم جس گھرمیں شادی سے پہلے رہتے تھے وہ ایک ہی گھر ہے، بھائیوں کا کہنا یہ ہے کہ حصہ تو اس جائداد کا ہوتاہے جس کا باپ بہت زرو زمین چھوڑ جاتاہے، گھر ہمارا اپنا ذاتی ہے، بہنوں کا یہ کہنا کہ ہمارے والد کے گھر میں ہمارا حصہ بنتاہے جو کہ ہمیں شرعی طورر پر ملنا چاہئے۔ اب آپ اس مسئلے کو حل کریں۔
جواب نمبر: 5569001-Sep-2020 : تاریخ اشاعت
بسم الله الرحمن الرحيم
آپ کے والد صاحب نے بوقت وفات جو کچھ چھوڑا وہ ترکہ ہوگیا جس کی تقسیم مرحوم کے ورثا کے درمیان ان کے حصص کے اعتبار سے ہوگی، اگر آپ کے والد نے صرف ایک مکان چھوڑا ہو تو اس میں بھی تمام ورثا کا حصہ ہوگا ورثا میں لڑکیاں بھی داخل ہیں؛ اس لیے آپ کی دو بہنوں کا اپنے والد مرحوم کے گھر میں ا پنے حصے کا مطالبہ کرنا درست ہے، اگر آپ کے والد مرحوم کی وفات کے وقت آپ کے دادا دادی میں سے کوئی حیات نہ رہا ہو تو آپ کے والد مرحوم کا ترکہ ۹۶/ حصوں میں منقسم ہوکر ۱۲/ حصے والدہ کو، ۱۴،۱۴ حصے چاروں بھائیوں میں سے ہرایک کو اور ۷،۷ حصے چاروں بہنوں میں سے ہرایک کو ملیں گے۔
بیوی=۱۲
لڑکا=۱۴
لڑکا=۱۴
لڑکا=۱۴
لڑکا=۱۴
لڑکی=۷
لڑکی=۷
لڑکی=۷
لڑکی=۷
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند