معاملات >> وراثت ووصیت
سوال نمبر: 603260
چار بیٹوں اور سات بیٹیوں كے درمیان تقسیم جائیداد
کیا فرماتے ہیں علما ء کرام و مفتیان عظام مسُلہ ذیل کے بارے میں :
1)کہ ارشاد علی کی وفات ہوگئی ہے ، انکی دو بیویاں تھیں ، اور دونوں کا انتقال بھی ارشاد علی کی حیات ہی میں ہوگیا تھا دونوں بیویوں سے 5 لڑکے اور 7 لڑکیاں ہیں جن میں سے ایک لڑکے کا انتقال بھی ارشاد علی کی حیات ہی میں ہوگیا تھا۔اس کی ایک اولاد زندہ ہے جو کے ارشاد علی کے پوتے ہیں۔اب دریافت طلب مسُلہ یہ ہیں کے ارشاد علی کی وراثت ان کی اولاد میں کس طرح تقسیم ہوگی؟
2) کیا مرحوم لڑکے کی اولادبھی وراثت کی حقدار ہوگی؟ دو لڑکیوں کی ابھی تک شادی نہیں ہوئی ہے اب وراثت کی تقسیم شادی سے قبل ہو یا بعد؟
(3 (4ارشاد علی کی وفات کو سات مہینے ہو چکے ہیں اُن کی پوری جائیداد کا علم دوسری بیوی کے بچوں کو ہے تو کیا تقسیمِ وراثت میں اس قدر تا خیر کرنا جائز ہے ؟جبکہ باقی حقداروں کا تقاضہ بھی ہے ۔
(5اگر دوسری بیوی کے بچے جن کو پوری جائیداد کا علم ہے تقسیمِ وراثت کے وقت پوری جائیداد کو ظاہر نہ کریں تو یہ شریعت کی نگاہ میں کیا ہے ؟
جواب نمبر: 603260
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa : 681-86T/B=07/1442
صورت مذکورہ میں ارشاد علی کا کل ترکہ 15 سہام پر شریعت کے اصول کے مطابق تقسیم ہوگا۔ جن میں سے چاروں لڑکوں کو 2-2 سہام ملیں گے۔ اور ساتوں لڑکیوں کو ایک ایک سہام ملیں گے۔ دونوں بیویاں چونکہ ارشاد علی کی حیات میں فوت ہوگئی ہیں لہٰذا وہ وارث نہ ہوں گی۔ اور جو لڑکا ارشاد علی کی حیات میں فوت ہوگیا ہے وہ بھی اور اس کے بیوی بچے (پوتے) بھی محروم ہوجائیں گے۔
(۲) میراث کی تقسیم میں بلاوجہ تاخیر کرنا مناسب نہیں، جلد سے جلد تقسیم کردینا چاہئے۔ موجودہ بہنوں کی شادی ان کے بھائی کریں گے۔
(۳، ۴، ۵) دوسری بیوی کے بچوں سے ارشاد علی کی پوری جائیداد کا پتہ لگانا ضروری ہے اور بچوں کو بتانا بھی فرض ہے۔ معلوم ہونے پر تمام جائیداد سابق تحریر کے مطابق کردیں۔ اگر وہ نہیں بتاتے ہیں تو یہ ا ن کی چوری اور خیانت اور اپنے بھائی بہنوں کی حق تلفی ہوگی۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند