• متفرقات >> حلال و حرام

    سوال نمبر: 167483

    عنوان: سودی قرض یا جوئے کی رقم سے کیے جانے والے کاروبار کے منافع کا حکم

    سوال: میرا سوال یہ ہے کہ کوئی اپنے والد کے دیئے ہوئے پیسوں سے کاروبار کرے یا پھر والد کے دیئے ہوئے کاروبار کو چلائے جب کہ وہ پیسہ یا کاروبار والد نے غلط طریقوں سے کیا ہوجیسے سودی قرض ، جوا، شیئر مارکیٹ کے پیسوں سے ،اس کا بیٹا تو حلال طریقے سے کاروبار چلتاہے تو کیا اس کے لیے وہ پیسہ یا کاروبار حلال ہوگا یا نہیں؟

    جواب نمبر: 167483

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:341-422/sd=6/1440

    صورت مسئولہ میں اگر بیٹا جائز طریقے پر کاروبار کرتا ہے ، تو اُس کی آمدنی حلال رہے گی، خواہ والد نے بیٹے کو سودی قرض لے کر پیسے دیے ہوں یا کاروبار سودی قرض سے چلایا ہو، سودی قرض کا گناہ قرض لینے والے کو ملے گا، لیکن اس قرض کی بنیاد پر جائز طریقے پر کیے جانے والے کاروبار کی آمدنی حلال ہوگی؛ البتہ اگر باپ نے جوئے کی رقم بیٹے کو دی تھی، تو اتنی رقم باپ کو واپس کرنا ضروری ہے تاکہ باپ یہ رقم مالک تک پہنچا دے اور اگر مالک تک پہنچانا ممکن نہ ہو، تو صدقہ کردے باقی اس رقم سے حاصل شدہ منافع کو حرام نہیں کہا جائے گا ۔

    قال ابن عابدین :قولہ (اکتسب حراما ) توضیح المسألة ما فی التتارخانیة حیث قال: رجل اکتسب مالا من حرام ثم اشتری فہذا علی خمسة أوجہ: أما إن دفع تلک الدراہم إلی البائع أولا ثم اشتری منہ بہا أو اشتری قبل الدفع بہا ودفعہا، أو اشتری قبل الدفع بہا ودفع غیرہا، أو اشتری مطلقا ودفع تلک الدراہم، أو اشتری بدراہم أخر ودفع تلک الدراہم. قال أبو نصر: یطیب لہ ولا یجب علیہ أن یتصدق إلا فی الوجہ الأول، وإلیہ ذہب الفقیہ أبو اللیث، لکن ہذا خلاف ظاہر الروایة فإنہ نص فی الجامع الصغیر: إذا غصب ألفا فاشتری بہا جاریة وباعہا بألفین تصدق بالربح. وقال الکرخی: فی الوجہ الأول والثانی لا یطیب، وفی الثلاث الأخیرة یطیب، وقال أبو بکر: لا یطیب فی الکل، لکن الفتوی الآن علی قول الکرخی دفعا للحرج عن الناس اہ ۔ (رد المحتار )


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند