• عبادات >> زکاة و صدقات

    سوال نمبر: 41777

    عنوان: مصارف زکات

    سوال: 1۔ براے کرم مصارف زکات کی عمومی ترجیح میں رشتہ داروں اور قرابت داروں کی بابت بتائیں کہ ان کو زکات دینا کیا زیادہ افضل ہے؟ اور اس کی شریعت نے کوئی تاکید کی ہے یا زکات دینے والے کی صوابدید پر منحصر ہے کہ وہ کس کو زکات دینا چاہتا ہے ؟ ۲۔ میں نے کسی کتاب میں پڑھا کہ اپنے اقربا کے مستحق ہونے کہ باوجود جو شخص دوسروں کو زکات دے تو ازروئے حدیث نبوی اس کی زکات قبول ہوتی ہے نہ اللہ تعالیٰ روز قیامت اس کی طرف نظر فرماے گا ؟ کیا یہ درست ہے ؟ ۳۔ زکات کا اپنے شہر میں دینے کا بھی کوئی مسئلہ ہے ؟ اگر اپنے رشتے دار شہر سے باہر ہوں تو ان کو زکات دے سکتے ہیں یا نہیں اور افضل کیا ہے زکات کا اپنے رشتے داروں ،ماتحتوں اور اقربا کو دینا یا ان کے ہوتے ہوئے دوسرے مستحقین کو بھی زکات دے سکتے ہیں؟

    جواب نمبر: 41777

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی: 1725-641/L=1/1434 (۱) رشتہ داروں اور قرابت داروں کو زکات دینا زیادہ افضل ہے، شریعت میں اس کی تاکید وترغیب آئی ہے، اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ”أفضل الصدقة الصدقة علی ذي الرحم الکاشح“․ أخرجہ الطبراني في الکبیر (25/204-80) والحمیدي في مسندہ (328) عن أم کلثوم بنت عقبہ، وقال الہیثمي في المجمع (3/217) رجالہ رجال الصحیح․ وعن أبي أیوب مثل ذلک عند الطبراني أیضًا (4/138,3126) وأحمد (3/402) وقال الہیثمي في المجمع (3/217) إسنادہ حسن․ (۲) اس طرح کا مضمن ایک حدیث میں آیا ہے وہ حدیث یہ ہے: عن أبي ہریرة -رضي اللہ عنہ- أن النبي -صلی اللہ علیہ وسلم- قال: ”یا أمة محمد! والذي بعثني بالحق، لا یقبل اللہ صدقة من رجل ولہ قرابة محتاجون إلی صلتہ، ویصرفہا إلی غیرہم، والذي نفسي بیدہ لا ینظر اللہ إلیہ یوم القیامة․ أخرجہ الطبراني في الأوسط (8828) وقال: لم یرو ہذا الحدیث عن الزہري إلا عبد اللہ بن عامر تفرد بہ خالد بن نزار۔ لیکن یہ روایت اولاً تو ضعیف الاسناد ہے، علامہ ہیثمی نے اپنی کتاب مجمع الزوائد (3/217) میں کہالا ہے: فیہ عبد اللہ بن عامر الأسلمي وہو ضعیف، وقال أبو حاتم: لیس بالمتروک وبقیة رجالہ ثقات․ ثانیاً: اس حدیث کا یہ مطلب نہیں کہ زکات ادا نہیں ہوگی؛ بلکہ مطلب یہ ہے کہ اسے اس پر جو ثواب ملنا تھا وہ نہیں ملے گا، اور اس کے ذمہ سے فرضیت ساقط ہوجائے گی، علامہ شامی اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں: المراد بعدم القبول عدم الإثابة علیہا وإن سقط بہا الفرض: لأن المقصود منہا سد خلة المحتاج، وفي القریب جمع بین الصلة والصدقة․ (شامي: 3/204) (۳) اگر رشتہ دار شہر سے باہر رہتے ہوں تو انھیں زکات بھیجنے میں کوئی کراہت نہیں اور اہل قرابت کو زکاة دینا زیادہ افضل ہے، ان کے ہوتے ہوئے دوسرے مستحقین کو بھی زکات دے سکتے ہیں۔ قال في رد المحتار: وکُرہ نقلہا إلا إلی قرابة․․․ أو أحوج․․․ أو إلی طالب علم․ (3/304)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند