• معاشرت >> عورتوں کے مسائل

    سوال نمبر: 59544

    عنوان: حاملہ عورت کے خون کا حکم اسقاط حمل کے بعد

    سوال: جناب مفتی صاحب!ایک عورت کو حاملہ ہوئے ساڑھے تین ماہ ہوئے ۔ساڑھے تین ماہ پورے ہونے پر اس کو خون آناشروع ہوگیا۔ڈاکٹروں کی رائے یہ ہوئی کہ ڈی این سی کروائی جائے اور اس حمل کو ضائع کروادیاجائے چنانچہ ان کے مشورہ سے حمل ضائع کروادیاگیا۔ (۱) سوال یہ ہے کہ ایسی عورت کو حالت حمل میں جو خون آیاوہ حیض ہے یا کیا؟ (۲) نیزاسقاط حمل کے بعد جو خون آرہاہے وہ نفاس ہوگایاحیض؟نمازوں کا کیاحکم ہوگا؟جواب دیکر ماجور ہوں۔

    جواب نمبر: 59544

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 544-509/Sn=8/1436-U (۱) یہ استحاضہ کا خون ہے، حیض نہیں ہے، اس کی وجہ سے نماز معاف نہیں ہوتی وما تراہ صغیرة دون تسع․․․ وحامل ولو قبل خروج أکثر الولد استحاضة (رد المحتار علی الدر المختار: ۱/۴۷۷، باب الحیض، زکریا) (۲) ساڑھے تین مہینے کے حمل کے کچھ اعضاء بن جاتے ہیں، اور فقہاء نے تصریح کی ہے کہ اگر کچھ اعضاء بننے کے بعد حمل ضائع ہو (یا اسقاط کرایا جائے) تو اس کے بعد آنے والا خون نفاس شمار ہوگا اور ایسی عورت پر ”نفساء“ کے احکام جاری ہوں گے یعنی نماز نہ پڑھے گی، روزہ نہ رکھے گی وغیرہ۔ رد المحتار میں ہے: نعم نقل بعضہم أنہ اتفق العلماء علی أن نفخ الروح لا یکون إلاّ بعد أربعة أشہر أي عقبہا کما صرّح بہ جماعة․․․ ولا ینافي ذلک ظہور الخلق قبل ذلک؛ لأن نفخ الروح إنّما یکون بعد الخلق، وتمام الکلام في ذلک مبسوط في شرح الحدیث الرابع من الأربعین النوویة (۱/۵۰۱، مطلب في أحوال السقط وأحکامہ، ط: زکریا)․․․ والسقط إن ظہر بعضہ فہو ولد تصیر بہ نفساء والأمة أم الولد․․․؛ لأنہ ولد لکنہ ناقص الخلقة ونقصان الخلقة لا یمنع أحکام الولادة، وفي قولِ صاحب التبیین: لا یستبین خلقہ إلا في مأة وعشرین یومًا، نظر، تأمل․ (مجمع الأنہر مع ملتقی الأبحر، ۱/ ۸۴، ط: دار الکتب العلمیة، بیروت) دیکھیں: (امداد الفتاوی: ۱/۱۰۱، سوال: ۷۶، ۷۷، ۷۸، ط: کراچی۔ احسن الفتاوی: ۱۰/ ۱۷۴، ط: زکریا)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند