عبادات >> اوقاف ، مساجد و مدارس
سوال نمبر: 11173
کیا اس مسجد میں نماز ہوسکتی ہے کہ کوئی شخص اس مسجد کو اپناقرض دار کہتا ہو۔ یہ کہے کہ میرے پیسے لگے ہیں اس مسجد میں او راپنے پیسے لینے سے بھی انکار کرتا ہے۔ اس مسجد کی امامت چاہتا ہے۔ لوگوں نے اسے نکال دیا اور دوسرا امام رکھا۔ اب اس مسجد میں نماز پڑھنا کیسا ہے؟
کیا اس مسجد میں نماز ہوسکتی ہے کہ کوئی شخص اس مسجد کو اپناقرض دار کہتا ہو۔ یہ کہے کہ میرے پیسے لگے ہیں اس مسجد میں او راپنے پیسے لینے سے بھی انکار کرتا ہے۔ اس مسجد کی امامت چاہتا ہے۔ لوگوں نے اسے نکال دیا اور دوسرا امام رکھا۔ اب اس مسجد میں نماز پڑھنا کیسا ہے؟
جواب نمبر: 1117331-Aug-2020 : تاریخ اشاعت
بسم الله الرحمن الرحيم
فتوی: 296=296/م
مسجد مذکور اگر مغصوبہ زمین میں نہیں ہے تو اس میں نماز پڑھنا بلاکراہت درست ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
مرحوم کے ثواب کے لیے جو رقم دی جاتی ہے وہ
صدقہ ہوگا یا عطیہ کہلائے گا، نیز اس رقم کو مسجد میں دینا کیسا ہے؟
ہماری مسجد کی حد میں کچھ دکانیں ہیں۔ کمیٹی ممبر ان نے ان کو مسلمان بھائیوں کو کرایہ پر دی ہیں۔ او رکمیٹی کچھ رقم بطور رینٹل ڈپوزٹ کے لیتی ہے، جب کرایہ دار دکان خالی کرتاہے تو اس کو ڈپوزٹ واپس کردیا جاتاہے۔ کمیٹی ڈپوزٹ کی رقم بینک میں رکھتی تھی، اس لیے ہمیں ہر چھ ماہ میں بینک سے سود ملتا ہے۔اس لیے میرا سوال ہے کہ (۱)کیا ہم سود کا پیسہ نکال کرکے اس کو بیت المال کے فنڈ میں منتقل کرسکتے ہیں؟ (۲)کیا ہم میونسپل ٹیکس (دکانوں کا پراپرٹی ٹیکس) سود کی رقم سے اداکرسکتے ہیں؟ (۳)کیا ہم سود کی رقم مسجد کی پراپرٹی کی دیکھ بھال کرنے والے وکیل کو دے سکتے ہیں؟ (۴)کیا ہم سود کی رقم استعمال کرسکتے ہیں یا نہیں، اگر استعمال کرسکتے ہیں تو ہمیں سود کی رقم کہاں استعمال کرنی چاہیے؟ اگر استعمال نہیں کرسکتے ہیں تو ہمیں سود کی رقم کو کیا کرنا چاہیے؟
2806 مناظرمسجد پر وقف شدہ اینٹوں کو ادھار دینا
4666 مناظرتجارتی حلقہ میں ایک مرحومہ نے اپنی جائداد مرنے سے قبل تین حصوں میں وقف کر دی تھی۔ ایک حصہ مسجد میں، ایک حصہ اپنی اکلوتی بیوہ بیٹی کو، اور ایک حصہ اپنی نواسی کو۔ (۲)وقف شدہ جائیداد میں ایک دکان بھی واقع ہے اور اس میں ایک کرایہ دار آج بھی بہت ہی معمولی کرایہ پر ہے۔ (۳)آج اس دکان کا کم سے کم کرایہ سات سے آٹھ ہزار ماہانہ آسکتا ہے لیکن جو صاحب اس وقت دکان میں ہیں وہ صرف 115روپیہ ماہوار ادا کررہے ہیں۔ (۴)کرایہ دار کے والد مرحوم نے تحریری طور پر یہ لکھ کر دیا تھا کہ جب بھی مکان مالکن کہیں گی دکان خالی کردی جائے گی۔(۵)وقف شدہ جائداد کی دکان کی تجارتی اہمیت کو مد نظر رکھتے ہوئے حالیہ کرایہ دار نے اس ڈر سے کہ اگر مسجد کے علاوہ یہ جائداد کسی اور کی تحویل میں چلی جائے گی وہ صاحب (دکاندار) نے ایک پیشکش کی کہ اگر یہ جائداد مسجد کی تحویل میں آتی ہے تو وہ صاحب (دکاندار) دو لاکھ روپیہ دیں گے۔ جس کو پنچایت نے ایک عطیہ سمجھا اور ان صاحب (دکاندار) کو ایک اقرار نامہ اسٹامپ پیپر پر لکھ کر دے دیا اور انھیں صاحب نے وقف شدہ جائداد کی قیمت ساڑھے چار لاکھ روپیہ مقرر کردی جب کہ اس کی قیمت کہیں زیادہ تھی۔ چونکہ جائداد تین حصوں میں وقف کی گئی تھی اور دو لاکھ کی پیشکش دینے والے صاحب (دکاندار) نے .....
2125 مناظر