عبادات >> اوقاف ، مساجد و مدارس
سوال نمبر: 600480
مسجد کے احاطے میں تیس سال سے مدرسہ چل رہا تھا اور تعلیم کا سلسلہ آج تک جاری ہے ،کبھی کبھی نما ز بھی پڑھ لیا کرتے تھے ۔اب مسجد کا تعمیر ی کام ہو رہا ہے ،کیا ایسی صورت میں از روئے شرع اس جگہ پر بیت الخلاء، استنجا خانہ بنوا سکتے ہیں؟مہر بانی فرما کرفتوی مرحمت فرمائیں۔
جواب نمبر: 60048014-Nov-2020 : تاریخ اشاعت
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa : 173-210/B=03/1442
جی ہاں اگر وہ جگہ خارج مسجد حصہ ہے تو اس میں بیت الخلاء بنوا سکتے ہیں۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
تجارتی حلقہ میں ایک مرحومہ نے اپنی جائداد مرنے سے قبل تین حصوں میں وقف کر دی تھی۔ ایک حصہ مسجد میں، ایک حصہ اپنی اکلوتی بیوہ بیٹی کو، اور ایک حصہ اپنی نواسی کو۔ (۲)وقف شدہ جائیداد میں ایک دکان بھی واقع ہے اور اس میں ایک کرایہ دار آج بھی بہت ہی معمولی کرایہ پر ہے۔ (۳)آج اس دکان کا کم سے کم کرایہ سات سے آٹھ ہزار ماہانہ آسکتا ہے لیکن جو صاحب اس وقت دکان میں ہیں وہ صرف 115روپیہ ماہوار ادا کررہے ہیں۔ (۴)کرایہ دار کے والد مرحوم نے تحریری طور پر یہ لکھ کر دیا تھا کہ جب بھی مکان مالکن کہیں گی دکان خالی کردی جائے گی۔(۵)وقف شدہ جائداد کی دکان کی تجارتی اہمیت کو مد نظر رکھتے ہوئے حالیہ کرایہ دار نے اس ڈر سے کہ اگر مسجد کے علاوہ یہ جائداد کسی اور کی تحویل میں چلی جائے گی وہ صاحب (دکاندار) نے ایک پیشکش کی کہ اگر یہ جائداد مسجد کی تحویل میں آتی ہے تو وہ صاحب (دکاندار) دو لاکھ روپیہ دیں گے۔ جس کو پنچایت نے ایک عطیہ سمجھا اور ان صاحب (دکاندار) کو ایک اقرار نامہ اسٹامپ پیپر پر لکھ کر دے دیا اور انھیں صاحب نے وقف شدہ جائداد کی قیمت ساڑھے چار لاکھ روپیہ مقرر کردی جب کہ اس کی قیمت کہیں زیادہ تھی۔ چونکہ جائداد تین حصوں میں وقف کی گئی تھی اور دو لاکھ کی پیشکش دینے والے صاحب (دکاندار) نے .....
1835 مناظرحضرت
ہمارے محلہ میں کچھ سرکاری زمین تھی، اس پر اہل محلہ نے سرکار کی اجازت سے مسجد
تعمیر کر لی۔ مسجد بنانے کے بعد کچھ زمین بچ گئی اور وہ زمین مسجد کے لیے استعمال
نہیں ہوسکتی تھی۔ تو لوگوں نے سوچا کہ اس پر کچھ دکانیں بنائی جائیں تاکہ مسجد کی
ضروریات پوری کی جاسکیں۔ لیکن دکانوں کے لیے اہل محلہ نے چندہ نہیں دیا۔ تب اس پر
کچھ لوگوں نے اپنی جیب سے آٹھ دکانیں بنادیں۔ اس مسئلہ میں یہ اتفاق ہوا کہ دکانوں
سے متعین بارہ سو روپیہ ہر مہینہ مسجد کو دئے جائیں گے تاکہ اس سے مسجد کی ضروریات
پوری ہوسکیں اور باقی کرایہ وہ لوگ لیں گے جنھوں نے دکانیں بنائی تھیں۔ اب امام
مسجد یہ کہتے ہیں کہ چونکہ یہ زمین وقف تھی اس لیے سارا کرایہ مسجد کو جائے گا اور
وہ لوگ کرایہ نہیں لیں گے جنھوں نے دکانیں بنائی تھیں۔ جب کہ وہ لوگ کہتے ہیں کہ
دکانیں تو ہم نے اپنے پیسوں سے بنائی تھیں اور اس کے لیے ہم نے چندہ نہیں کیا تھا
اور ہم متعین بارہ سو روپیہ تو ہر مہینے مسجد کو دے رہے ہیں۔ اس مسئلہ پر روشنی
ڈالیں۔
مدرسہ کی تعمیر کے لیے دیے گئے پیسے دوسرے مدرسے کی تعمیر میں لگانا؟
2757 مناظرکوئی صاحب اپنے فرزند کی شادی کا پروگرام علاقہ کی عید گاہ میں کرنا چاہتے ہیں جب کہ ہمارے یہاں سرکاری بارات گھر موجود ہیں اور پارک بھی موجود ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ سرکاری بارات گھر میں جگہ کم پڑجاتی ہے اور بہت سے غریب لوگ بارات گھر کا کرایہ دینے سے قاصر ہیں۔ اس لیے جو کرایہ ہم ان لوگوں کو دیں گے اس کی جگہ ہم عید گاہ کے چندہ کی پرچی کٹوا لیں گے۔ کیا ہم اپنے ذاتی پروگرام عید گاہ میں کرسکتے ہیں؟ کیا یہ طریقہ صحیح ہے، مکمل مدلل جواب مطلوب ہے۔
4178 مناظرکچھ دن پہلے ہماری مسجد میں اعلان ہوا کہ آپ کے الیکشن ووٹر کارڈ آچکے ہیں اور اس کے ساتھ گورنمنٹ نے پندرہ پندرہ روپیہ بھی رکھے ہیں اور ساتھ ہی میں فرمایا ہم وہ پندرہ روپیہ آپ کو نہیں دیں گے، کیوں کہ ہم اس کا مسجدشریف کے لیے ایک پاور انورٹر لائیں گے۔ کیا ان پیسوں سے ہم مسجد شریف کے لیے انورٹر لا سکتے ہیں یا نہیں؟
1629 مناظرمسجد میں گندگی پھیلانے والے کو مسجد میں آنے سے روکنا؟
8594 مناظر