• عبادات >> اوقاف ، مساجد و مدارس

    سوال نمبر: 600606

    عنوان:

    امام کی تنخواہ کے لیے حرام کمائی والوں سے چندہ لینے کا حکم

    سوال:

    حرام کمائی والوں سے امامت کے اجرت لے سکتے ہے یا نہیں؟

    جواب نمبر: 600606

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:145-2/N=3/1442

     جس شخص کی کل یا اکثر آمدنی حرام ہو، اُس کے یہاں دعوت کھانا، اُس کا ہدیہ لینا یا مسجد ومدرسہ وغیرہ میں اُس کا چندہ قبول کرنا درست نہیں۔ اور اگر وہ دعوت کرے، ہدیہ دیں یا مسجد وغیرہ میں چندہ دے تو معذرت کردینی چاہیے۔ اور ائمہ مساجد کو امامت کی جو تنخواہیں دی جاتی ہیں، وہ اہل محلہ ائمہ کو بہ راہ راست نہیں دیتے؛ بلکہ اہل محلہ در اصل مسجد کو اپنا چندہ دیتے ہیں اور ذمہ داران مسجد، مسجد کی آمدنی سے ائمہ کرام کو تنخواہیں دیتے ہیں؛ لہٰذا ائمہ مساجد کو تنخواہ دینے کے لیے بھی حرام کمائی والوں سے چندہ نہیں لینا چاہیے۔

    أھدی إلی رجل شیئا أو أضافہ إن کان غالب مالہ من الحلال فلا بأس إلا أن یعلم بأنہ حرام، فإن کان الغالب ھو الحرام ینبغي أن لا یقبل الھدیة ولا یأکل الطعام إلا أن یخبرہ بأنہ حلال ورثتہ أو استقرضتہ من رجل کذا فی الینابیع، ولا یجوز قبول ھدیة أمراء الجور؛لأن الغالب في مالھم الحرمة إلا إذا علم أن أکثر مالہ حلال بأن کان صاحب تجارة أو زرع فلا بأس بہ ؛لأن أموال الناس لا تخلو عن قلیل حرام فالمعتبر الغالب، وکذا أکل طعامھم کذا فی الاختیار شرح المختار (۴:۱۸۷ط دار الکتب العلمیة بیروت)(الفتاوی الھندیة، کتاب الکراھیة، الباب الثاني عشر فی الھدایا والضیافات، ۵:۳۴۲، ط: المطبعة الکبری الأمیریة۔ بولاق، مصر) ۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند