• عبادات >> صوم (روزہ )

    سوال نمبر: 60644

    عنوان: مہمان كی وجہ سے نفلی روزہ توڑنا

    سوال: میں نے سنا ہے اور دیکھا ہے کہ بہت سے لوگ شعبان، ذی الحجہ اور دوسرے مہینوں میں اپنا نفل روزہ توڑدیتے ہیں یہ کہتے ہوئے کہ اگر کوئی کھانا کھانے یا ہلکے پھلکے ناشتے میں یا شام کی پارٹیوں میں بلائے یا دعوت دے تو نفل روزہ توڑنے کی اجازت ہے اور کسی کو نہ بتاؤ کہ تم روزہ رکھے ہو ۔ مجھے اس بارے میں جانکاری نہیں ہے، براہ کرم، حدیث کے حوالے سے اختصار کے ساتھ بتائیں۔جزاک اللہ خیر۔

    جواب نمبر: 60644

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 727-692/Sn=10/1436-U اگر کسی شخص کے پاس کوئی مہمان آئے اور اس دن وہ شخص (میزبان) نفل روزے سے ہو اور مہمان ایسے ہوں کہ اگر میزبان ان کے ساتھ کھانے میں شریک نہ ہو تو ان کو برا لگے گا، اس طرح اگر کوئی شخص کسی کا مہمان بنے یا اس کی کوئی شخص کھانے کی دعوت کرے اور وہ شخص روزے سے ہو اور حال یہ ہو کہ اگر یہ شخص کھانا نہ کھائے تو میزبان یا داعی کو برا لگ سکتا ہے تو اس شخص کے لیے نفل روزہ توڑکر کھانا کھالینے کی گنجائش ہے، اس میں کوئی گناہ نہیں ہے؛ البتہ اس پر ضروری ہے کہ آئندہ اس کے بدلے میں ایک روزے کی قضا کرے۔ اگر وہ شخص قضا کرنے کی ہمت نہیں رکھتا تو اسے روزہ نہ توڑنا چاہیے؛ بلکہ میزبان اور داعی کو معذرت کردینی چاہیے۔ مسلم، ترمذی، ابوداوٴد اور مسند احمد وغیرہ میں نفل روزہ توڑنے یا نہ توڑنے سے متعلق کئی روایات آئی ہیں، جس سے علماء نے وہی حکم مستنبط کیا جو اوپر مذکور ہوا ولا یفطر الشارع في نفل بلا عذر في روایة ہي الصحیحة وفي أخری یحلّ بشرط أن یکون من نیّتہ القضاء واختارہا الکمال وتاج الشریعة وصدرہا في الوقایة وشرحہا، والضیافة عذر وللضیف والمضیف إن کان صاحبہا ممّن لا یرضی صاحبہا بمجرّد حضورہ ویتأذی بترک الإفطار فیفطر وإلاّ فلا ہو الصحیح من المذہب ظہیریة (درمختار) وقال الشامي: وقیل ہي عذر قبل الزوال لا بعدہ وقیل عذر إن وثق من نفسہ بالقضاء ․․․ قلت: ویتعین القول الصحیح بہذا الأخیر إذ لا شک أنہ إذا لم یثق من نفسہ بالقضاء یکون منع نفسہ عن الوقوع فی الإثم أولی من مراعاة جانب صاحبہ․ (رد المحتار علی الدر المختار: ۳/ ۴۱۳، ط: زکریا)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند