• عبادات >> صلاة (نماز)

    سوال نمبر: 604900

    عنوان:

    فرض نماز کے بعد اجتماعی دعا کرنا

    سوال:

    زید یہ کہتا ہے کہ ہمارے یہاں فرض نماز کے بعد اس طرح دعا مانگی جاتی ہے کہ امام صاحب بآواز بلند چند عربی دعائیں کرتے ہیں اور مقتدی بس آمین کہتے ہیں۔ کیا اسطرح دعا کرنا سنت سے ثابت ہے ۔ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اور صحابہ نے فرض نماز کے بعد اسطرح کی اجتماعی دعائیں یا اس طرح جیسے دارالعلوم دیوبند کے فتوی میں منقول ہے کہ ہرشخص انفراداً دعا کرے جس سے اجتماعی ہیئت بن جائے مضائقہ نہیں ۔ ( خصوصا اس طرح کی دعا میں امام کا شروع و آخر کے جملہ بآواز بلند اور بقیہ دعا آہستہ کہنا کیا شرعا ثابت ہے ۔ یا یہ آسانی کے لیے تجویز کردہ شکل ہے ) اس طرح کی دعا میں بھی لوگ واقعتاً امام کے تابع ہوتے ہیں ہیئتاً نہیں کیونکہ لوگ بھی امام کے آخر جملہ پر دعا کے ختم کرنے کو ضروری سمجھتے ہیں۔ اگر انکو ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا تو امام کا دعا کے اختتام والے جملے کو بلند آواز سے کہنے کا کیا مطلب ہے ۔ اس سے تو ایسا ہی معلوم ہوتا ہے کہ میں یہاں دعا ختم کرتا ہوں آپ بھی ختم کرو ۔ اور ہر جگہ کا یہی معمول ہے کہ امام کے اختتام دعا پر مقتدی بھی دعا ختم کرتے ہیں ۔ کیا اسطرح کا ختم کرنا سنت سے ثابت ہے ۔ اور پھر اس پر ہر جگہ بلکہ دارالعلوم میں بھی مداومت نظر آتی ہے کبھی اس کو ترک نہیں کیا جاتا۔ جبکہ غیر سنت پر مداومت کرنا درست نہیں کیا زید کا یہ کہنا درست ہے ؟

    جواب نمبر: 604900

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:873-269T/sn=11/1442

     فرض نماز کے بعد دعا قبول ہوتی ہے ؛احادیث میں فرائض کے بعددعا کرنے کی بڑی ترغیب آئی ہے ؛ لیکن یہ دعا انفراداً ہونی چاہے ، اجتماعی جہری دعا کہ جب تک امام صاحب ہاتھ نہ اٹھائیں مقتدی حضرات بھی نہ اٹھائیں اور جب تک امام صاحب دعا ختم نہ کریں ،مقتدی بھی ختم نہ کریں، احادیث وآثار سے ثابت نہیں ہے ؛ اس لیے اس طرح کی اجتماعی دعا کا التزام قابل ترک ہے اور اسے ضروری خیال کرنا تو اور بھی برا ہے ۔امام صاحب کے سلام پھیرتے ہی مقتدیوں کا تعلق امام سے ختم ہوجاتا ہے ؛ اس لیے امام کے سلام پھیر نے کے بعد مقتدی حضرات کو چاہیے کہ ا پنی اپنی دعا کرلیں ، یہ اجتماعیت مضر نہیں ہے ۔دعا کے شروع اور اخیر میں امام کی طرف سے بہ آواز بلند بعض الفاظ کہے جانے کا جو رواج بعض جگہوں پر ہے یہ بھی قابل ترک ہے ؛ کیوں کہ اس طرح کی دعا میں بھی عوام اپنے آپ کو امام کے تابع سمجھتی ہیں، مستقل نہیں تو یہ بھی ممنوع اجتماعی دعا کی ایک شکل ہوئی ۔

    عن أَبِی أُمَامَةَ، قَالَ: قِیلَ یَا رَسُولَ اللَّہِ: أَیُّ الدُّعَاءِ أَسْمَعُ؟ قَالَ: جَوْفَ اللَّیْلِ الآخِرِ، وَدُبُرَ الصَّلَوَاتِ المَکْتُوبَاتِ .: ہَذَا حَدِیثٌ حَسَنٌ. [سنن الترمذی ت شاکر 5/ 526،باب بلا ترجمة)

    عن عمرو بن میمون الأودی قال: کان سعد یعلم بنیہ ہؤلاء الکلمات کما یعلم المعلم الغلمان ویقول: إن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کان یتعوذ بہن دبر الصلاة: اللہم إنی أعوذ بک من البخل، وأعوذ بک من الجبن، وأعوذ بک أن أرد إلی أرذل العمر، وأعوذ بک من فتنة الدنیا، وأعوذ بک من عذاب القبر(السنن الکبری للنسائی 9/ 57، الاستعاذة فی دبر الصلوات)

    عن زید بن أرقم قال سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یدعو فی دبر الصلاة یقول : اللہم ربنا ورب کل شیء أنا شہید أنک الرب وحدک لا شریک لک اللہم ربنا ورب کل شیء أنا شہید أن محمدا عبدک ورسولک اللہم ربنا ورب کل شیء أنا شہید أن العباد کلہم أخوة اللہم ربنا ورب کل شیء اجعلنی مخلصا لک وأہلی فی کل ساعة فی الدنیا والآخرة ذا الجلال والاکرام اسمع واستجب اللہ أکبر الأکبر اللہ نور السماوات والأرض اللہ (الأکبر) آالأکبر حسبی اللہ ونعم الوکیل اللہ (الأکبر) آاللہ الأکبر(عمل الیوم واللیلة للنسائی ص: 184، نوع آخر فی دبر الصلوات)(نیز دیکھیں :فتاوی محمودیہ7/344،مطبوعہ ڈابھیل، احسن الفتاوی3/59،مطبوعہ:مکتبہ زکریا، دیوبند)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند