عبادات >> صلاة (نماز)
سوال نمبر: 58338
جواب نمبر: 58338
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 809-852/L=7/1436-U آپ کے بزرگ کی بات غلط ہے، یہ ملاّوٴں کا مسئلہ نہیں، بلکہ شریعت کا حکم ہے اور حدیث سے ثابت ہے، بغیر علم کے زبان سے ایسی باتوں کے کرنے سے گریز کرنا چاہیے کہ دین کا مذاق نہایت سخت امر ہے، جو آدمی کو کفر تک پہنچاسکتا ہے: عن موسی بن سلمة ا لہذلي قال: سألت ابن عبّاس -رضي اللہ عنہما- کیف أصلّي إذا کنت بمکّة إذا لم أصلّ مع الإمام؟ فقال: رکعتین سنة أبي القاسم (أخرجہ مسلم: ۱/۲۷۱) عن موسی بن سلمة قال: کنا مع ابن عبّاس بمکّة: فقلت إنا إذا کنا معکم صلّینا أربعًا إذا رجعنا صلینا رکعتین، فقال تلک سنة أبي القالسم (رواہ أحمد في مسندہ) عن نافع أن عبد اللہ بن عمر کان یصلّي وراء الإمام بمنی أربعًا، فإذا صلّی لنفسہ، صلی رکعتین، أخرجہ الإمام مالک في موطاہ ص۵۲ وسندہ صحیح (إعلاء السنن: ۷/۳۲۳-۳۲۴) ان احادیث سے ثابت ہوا کہ مسئلہ یہی ہے کہ اگر مسافر چار رکعت والی نماز میں کسی مسافر امام کی اقتداء کرے، تو امام کے دو رکعت چار رکعت ادا کرنی ہوں گی اور اگر مقیم چار رکعت والی نماز میں کسی مسافر امام کی اقتداء کرے تو امام کے دو رکعت پر سلام پھیرنے کے بعد مقتدی کو بقیہ دو رکعتیں پوری کرنے کا حکم ہے: وإن اقتدی مسافر بمقیم یصلي رباعیة ولو في التشہد الأخیر في الوقت، صح اقتداوٴہ، وأتمہا أربعًا تبعًا لإمامہ، واتصال المغیر بالسبب الذي ہو الوقت (طحطاوي علی مراقي الفلاح ص۴۲۷) وصح اقتداء المقیم بالمسافر في الوقت، وبعدہ فإذا قام المقیم إلی الإتمام لا یقرأ، ولا یسجد للسہو في الأصح؛ لأنہ کاللاحق، والقعدتان فرض علیہ، وقیل: لا․ (الدر مع الرد: ۲/۶۱۰-۶۱۱، ط: زکریا دیوبند)
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند