عبادات >> صلاة (نماز)
سوال نمبر: 21883
جواب نمبر: 21883
بسم الله الرحمن الرحيم
فتوی(د): 1229=974-8/1431 امام کے پیچھے مقتدی کا قراء ت کرنا (سورہٴ فاتحہ پڑھنا) منع ہے، قرآن میں ہے وَاِذَا قُرِئ الْقُرْآَنُ فَاسْتَمِعُوْا لَہُ وَاَنْصِتُوْا لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَ چند حدیثیں پیش کی جاتی ہیں جن میں امام کی قراء ت کے وقت مقتدی کو خاموش رہنے کا حکم دیا گیا ہے، اور بعض حدیثوں میں یہ فرمایا گیا ہے کہ امام کی قراء ت مقتدی کی قراء ت کی طرف سے کافی ہے، مقتدی کو قراء ت کرنے کی ضرورت نہیں: عن أبي موسی قال علمنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال إذا قمتم إلی الصلاة فلیوٴمکم أحدکم وإذا قرأ الامام فأنصتوا (مسند ا؛مد: ۵/۴۱۵) عن أبي ہریرة قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم إنما جعل الإمام لیوٴتم بہ فإذا کبَّر فکبروا وإذا قرأ فأنصتوا الحدیث (مسلم شریف: ۱/۱۷۴، ابوداوٴد: ۱/۱۰۵، ابن ماجہ: ۶۱، نسائي شریف: ۱/۱۴۴،مسند أحمد بن حنبل: ۲/۳۷۶) حافظ ابن تیمیہ اس حدیث کے بارے میں فرماتے ہیں فتاویٰ ابن تیمیہ: ۲۳/۲۷۱: وثبت أنہ في ہذا الحال قرأة الإمام لہ قرأة کما قال ذلک جماہیر السلف والخلف من الصحابة والتابعین لہم بإحسان آگے علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اس حدیث کے شواہد پیش فرمائے اور اس سے احتجاج کو درست وصحیح قرار دیا جس سے معلوم ہوا کہ امام کے پیچھے پڑھنے والے مقتدی کو فاتحہ نہیں پڑھنی ہے کیونکہ امام کا سورہٴ فاتحہ پڑھ لینا اس کی طرف سے کافی ہے اور یہی مسلک جمہور صحابہ وتابعین کا دوسرے آثار واحادیث سے ثابت ہے جیسا کہ علامہ ابن تیمیہ نے بھی اس کی تصریح فرمائی ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند