• عبادات >> صلاة (نماز)

    سوال نمبر: 156477

    عنوان: صلاة استسقاء پڑھنا کیسا ہے اوراس كا طریقہ كیا ہے؟

    سوال: صلاة استسقاء پڑھنا کیسا ہے؟ اگر سنت ہے، تو اس کے پڑھنے کا طریقہ کیاہے؟

    جواب نمبر: 156477

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:326-26T/D=5/1439

    بارش کی سخت ضرورت کے وقت صلاة استسقاء پڑھنا مستحب ہے اور اس کی ادائیگی کا طریقہ یہ ہے کہ امام ایک دن متعین کرے اس دن سب لوگوں کو لے کر نہایت تواضع انکساری کے ساتھ جنگل پہنچے، وہاں دو رکعت نماز بغیر اذان واقامت کے پڑھائے، جن میں جہراً قرأت کرے، نماز کے بعد خطبہ دے اور خطبہ کی ابتداء میں چادر پلٹے، پھر قبلہ رو کھڑے ہوکر ہاتھ اٹھاکر دعا مانگے، سب لوگ بیٹھ کر آمین کہیں۔

    استسقاء کے لیے تین روز مسلسل نکلنا مستحب ہے۔ (مستفاد فتاوی دارالعلوم دیوبند: ۵/۲۳۸، ۲۱۴، ط: دارالعلوم دیوبند) قال في شرح المنیة بعد سوقہ الأحادیث والآثار: فالحاصل: أن الأحادیث لما اختلفت في الصلاة بالجماعة وعدمہا علی وجہ لا یصح بہ إثبات السنّیة لم یقل أبو حنیفة بسُنّیّتہا، ولا یستلزم منہا قولہ بأنہا بدعة کما نقلہ عنہ بعض المتعصبین بل ہو قائل بالجواز اھ قلت: والظاہر أن المراد بہ الندب والاستحباب لقولہ فی الہدایة: قلنا إنہ فعلہ علیہ الصلاة والسلام مرذة وترکہ أخری فلم یکن سنةً اھ لأن السنة ما واظب علیہ والفعل مرّة مع الترک أخری یفید الندب تأمل․․․ بأن یصلي بہم رکعتین یجہر فیہما بالقراء ة بلا أذان ولا إقامة ثم یخطب بعدہا قائما علی الأرض معتمدا علی قوس أو سیف أو عصا خطبتین عند محمد وخطبة عند أبي یوسف․ حلیة․․ یقلب الإمام ردائہ إذا مضی صدر من الخطبة (الدر مع الرد: ۳/ ۷۰-۷۱، باب الاستستقاء ط: زکریا دیوبند)ویستحق الخروج للاستسقاء ثلاثة أیام متابعان (حاشیة الطحطاوی علی المراقں: باب الاستسقاء/ ۵۴۹، ط: دار الکتاب دیوبند)۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند