• عبادات >> ذبیحہ وقربانی

    سوال نمبر: 600003

    عنوان: سعودی عرب میں مقیم شخص کا ہندوستان میں بارہ ذو الحجہ کو قربانی کروانا

    سوال:

    کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ ایک شخص جو جزیرة العرب میں مقیم ہے اور وہاں کی تاریخ کے مطابق بارہ ذو الحجہ کی شام تک وہ قربانی نہیں کرسکا لہذا اس نے ہندوستان میں اپنے ایک عزیز کو وکیل بنایا کہ اس کی طرف سے قربانی کر دی جائے اور ہندوستان میں أیام نحر کا آخری دن ( بارہ ذو الحجہ ) ہے تو کیا جزیرة العرب میں مقیم شخص کی طرف سے قربانی ہو جائے گی یا نہیں؟ اس مسئلے کا حکم جب بندہ نے تلاش کیا تو دارالافتاء بنوری ٹاؤن کراچی کا حکم عدم صحت کا تھا اور ہندوستان کے اکابرین میں اختلاف نظر آیا بعض قربانی کے صحیح ہونے کے قائل تھے بعض عدم صحت کے جس سے احقر کشمکش میں مبتلا ہو گیا لہذا آپ حضور والا سے درخواست ہے کہ دارالافتاء دارالعلوم دیوبند کا جدید موقف مدلل و محقق بیان فرما کر عند اللہ ماجور ہوں تاکہ دارالافتاء دارالعلوم کے موقف کو اختیار کیا جائے۔

    جواب نمبر: 600003

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:40-19/N=2/1442

     

    قربانی میں اگر وکیل اور موٴکل دونوں کے ملکوں کی تاریخیں الگ الگ ہوں توقربانی درست ہونے کے لیے ضروری ہے کہ دونوں ملک میں ایام قربانی آچکے ہوں اور باقی بھی ہوں۔ اور اگر وکیل یا موٴکل کسی کے ملک میں ایام قربانی نہیں آئے یا آکر چلے گئے تو قربانی درست نہ ہوگی ؛ کیوں کہ قربانی، واجبات موٴقتہ میں سے ہے،جیسے: نماز،رمضان کا روزہ وغیرہ، اور واجبات موٴقتہ میں مامور بہ کا نفس وجوب، وقت کی آمد پر ہی ہوتا ہے،اُس سے پہلے نہیں، اور وقت میں مکلف کی جائے قیام کا اعتبار ہوتا ہے؛ اس لیے اگر موٴکل کے ملک میں قربانی کا وقت نہیں آیا، یعنی: دس ذی الحجہ کی صبح صادق نہیں ہوئی تو موٴکل پر قربانی واجب ہی نہیں ہوئی اور جس طرح وجوب (وفرضیت)سے پہلے پڑھی گئی نماز درست نہیں ہوتی، یعنی: وقت آنے پر جب نماز فرض یا واجب ہوگی تودوبارہ پڑھنی ہوگی۔ اسی طرح وجوب سے پہلے کی گئی قربانی بھی درست نہ ہوگی، یعنی: وقت آنے پر واجب قربانی دوبارہ کرنی ہوگی۔ اور قربانی میں جانور کا جو خون بہایا جاتا ہے، یہ شریعت میں قربت غیر معقولہ، یعنی: خلاف قیاس ہے ؛ اس لیے اگر کسی نے ایام قربانی میں صاحب نصاب ہونے کے باوجود قربانی نہیں کی تو ایام قربانی کے بعد اس کے حق میں قربانی کرنا(اراقہ دم)قربت اور عبادت کا کام نہیں رہتا، یعنی: اب اگر وہ قربانی میں جانور ذبح کرنا چاہے تو قربانی نہیں ہوگی؛ بلکہ اس پر ضروری ہوگا کہ زندہ جانور،متوسط جانور کی قیمت یا بڑے جانور کے ساتویں حصے کی قیمت صدقہ کرے؛ لہٰذا اگرموٴکل کے ملک میں قربانی کے ایام آکر چلے گئے تو اب اس کی جانب سے کہیں قربانی نہیں ہوسکتی ؛کیوں کہ اب اُس کے حق میں قربانی کرنا قربت اور عبادت نہیں رہا۔

    خلاصہ یہ کہ اگر کوئی سعودیہ میں مقیم شخص وہاں کی ۱۲/ ذی الحجہ کی شام (غروب آفتاب)تک قربانی نہیں کرسکا تو وہ ہندوستان میں یا کسی بھی جگہ اپنی قربانی نہیں کراسکتا اگرچہ وہاں ابھی قربانی کا آخری دن(۱۲/ ذی الحجہ) باقی ہو۔صحیح مسئلہ یہی ہے۔

    (وسببھا الوقت) وھو أیام النحر،…… (فتجب) التضحیة أي: إراقة الدم من النعم،……(علی حر مسلم مقیم) … (موسر) … (شاة) … (أو سبع بدنة) … (فجر)، نصب علی الظرفیة … (یوم النحر إلی آخر أیامہ) وھي ثلاثة أیام أفضلھا أولھا (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الأضحیة، ۹: ۴۵۳- ۴۵۸، ط: مکتبة زکریا دیوبند)۔

    قولہ:”وسببھا الوقت“: أي: سبب الحکم ما ترتب علیہ الحکم مما لا یدرک العقل تأثیرہ ولا یکون بصنع المکلف کالوقت للصلاة،…وذکر فی النھایة :…ثم حقق أن السبب ھو الوقت؛ لأن السبب ھو الوقت إنما یعرف بنسبة الحکم إلیہ وتعلقہ بہ، …،والدلیل علی سببیة الوقت امتناع التقدیم علیہ کامتناع تقدیم الصلاة،وإنما لم تجب علی الفقیر لفقد الشرط، وھو الغنی وإن وجد السبب اھ، وتبعہ فی العنایة والمعراج۔……قولہ:”نصب علی الظرفیة“:أي:لقولہ: ”تجب“:، وھذا بیان لأول وقتھا مطلقاً إلخ (رد المحتار)۔

    وأما وقت الوجوب فأیام النحر، فلا تجب قبل دخول الوقت؛ لأن الواجبات الموٴقتة لا تجب قبل أوقاتھا کالصلاة والصوم ونحوھما، وأیام النحر ثلاثة إلخ (بدائع الصنائع، کتاب الأضحیة، ۶: ۲۸۵، ط: دار الکتب العلمیہ بیروت)۔

    وسببھا الوقت وھو أیام النحر(درر الحکام في شرح غرر الأحکام، کتاب الأضحیة، ۱:۲۶۶، ط: کراتشي)۔

    قولہ: ”وسببھا الوقت“: لا نزاع في سببیتہ، قولہ: ”وھو أیام النحر“:من إضافة السبب إلی حکمہ، یقال: یوم الأضحی کقولھم یوم الجمعة ویوم العید کذا في العنایة (غنیة ذوي الأحکام، في بغیة درر الحکام)۔

    وتختص بأیام النحر ، وھي ثلاثة : ……، فإن مضت ولم یذبح؛ فإن کان فقیراً وقد اشتراھا تصدق بھا حیة، وإن کان غنیاً تصدق بثمنھا، اشتراھا أو لا۔ ویدخل بطلوع الفجر أول أیام النحر إلا أن أھل المصر لا یضحون قبل صلاة العید (المختار مع الاختیار، ۴: ۲۶۰، ۲۶۱، ط:دار الرسالة العالمیة)۔

    ثم أول وقت الأضحیة عند طلوع الفجر الثاني من یوم النحر؛إلا أن في حق أھل الأمصار یشترط تقدیم الصلاة علی الأضحیة؛ فمن ضحی قبل الصلاة في المصر لا تجزئہ لعدم الشرط لا لعدم الوقت، ولھذا جازت التضحیة في القری بعد انشقاق الفجر، ودخول الوقت لا یختلف في حق أھل الأمصار والقری الخ (المبسوط للسرخسي،باب الأضحیة، ۱۲: ۱۰، ط:دار المعرفة بیروت)، ومثلہ في الاختیار لتعلیل المختار، واللباب في شرح الکتاب والشرنبلالیة ورد المحتار وغیرھا من کتب الفقہ۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند