• عبادات >> ذبیحہ وقربانی

    سوال نمبر: 612051

    عنوان:

    کیا قربانی کا گوشت اندازے سے تقسیم کرنا درست ہے؟

    سوال:

    عید الاضحی پر اس جانور میں جس میں کئی لوگ حصے دار ہیں، قربانی كے بعد گوشت کی تقسیم کرنے میں ایک صاحب نے بتایا کہ گوشت کو اندازے سے تقسیم نہیں کر سکتے، چاہے اُس پر سب حصے دار رضی ہوں، تول کر ہی کرنا ہو گا اور کہا کہ اگر ایک بوٹی /بوتی بھی زیادہ چلی گئی تو یہ سود ہو جائے گا پِھر اس کا حَل یہ بتایا کہ جب کلیجہ تقسیم کریں تو اس میں گوشت ملا دیں اور جب گوشت تقسیم کریں تو اس میں کلیجی ، اِس طرح جنس تبدیل ہو جائے گی اور کہا کہ یہ فقہی مسئلہ ہے کیا یہ مسئلہ درست ہے؟

    جواب نمبر: 612051

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa: 893-377/TD-Mulhaqa=11/1443

     صورت مسئولہ میں حکم یہی ہے کہ قربانی کے جانور میں اگر کئی افراد شریک ہوں تو گوشت کی تقسیم وزن کرکے کرنا ضروری ہے، اندازے سے تقسیم جائز نہیں ہے، خواہ تمام شرکاء اندازے سے تقسیم کرنے پر راضی ہوں ؛ البتہ اگر باہمی رضامندی سے تقسیم میں دیگر اعضاء، مثلا:کلہ(سری) پائے، کلیجی وغیرہ کو بھی گوشت کے ساتھ کرلیا جائے اور ہر شریک کے حصے میں ان چیزوں میں سے کچھ نا کچھ آجائے تو خلاف جنس ہونے کی وجہ سے اندازے سے بھی تقسیم کرنا جائز ہوجائے گا ۔

    قال الحصکفی : لا جزافا إلا إذا ضم معه من الأكارع أو الجلد) صرفا للجنس لخلاف جنسه.قال ابن عابدین: (قوله لا جزافا) لأن القسمة فيها معنى المبادلة، ولو حلل بعضهم بعضا قال في البدائع: أما عدم جواز القسمة مجازفة فلأن فيها معنى التمليك واللحم من أموال الربا فلا يجوز تمليكه مجازفة.وأما عدم جواز التحليل فلأن الربا لا يحتمل الحل بالتحليل، ولأنه في معنى الهبة وهبة المشاع فيما يحتمل القسمة لا تصح اهـ وبه ظهر أن عدم الجواز بمعنى أنه لا يصح ولا يحل لفساد المبادلة خلافا لما بحثه في الشرنبلالية من أنه فيه بمعنى لا يصح ولا حرمة فيه (قوله إلا إذا ضم معه إلخ) بأن يكون مع أحدهما بعض اللحم مع الأكارع ومع الآخر البعض مع البعض مع الجلد عناية۔ ( الدر المختار مع ردالمحتار: ۶/۳۱۷، ۳۱۸، دار الفکر، بیروت ) لو أنہم اقتسموا لحمہا جزافا وحلل کل واحد منہم لأصحابہ الفضل لایجوز، لأن الربا لایحتمل الحل بالتحلیل … اقتسموا اللحم جزافا وفی نصیب کل واحد منہم شیئ مما لا یوزن کالرجل والرأس لا بأس بہ إذا حلل بعضہم بعضا۔ (فتاوی قاضیخان: ۳/۲۴۷، زکریا، دیوبند ، جدید،نیز دیکھیے:فتاوی محمودیہ:۲۶/۳۳۲، میرٹھ)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند