• معاشرت >> دیگر

    سوال نمبر: 63522

    عنوان: ایک ناجائز بچے کی ولدیت کے خانہ میں کیا نام لکھنا ہوگا ؟

    سوال: پندرہ سال ہوچکے ہیں ، لیکن تاحال بے اولاد ہوں، بچہ گود لینا چاہتاہوں ، کچھ سوالات پوچھنے ہیں؛ (۱) بچہ گود لینا چاہتاہوں ، شریعت میں اس کی حیثیت کیا ہے؟ (۲) ناجائز بچہ کا گود لینا اسلام کی نظر میں کیسا ہے؟ (۳) ایک ناجائز بچے کی ولدیت کے خانہ میں کیا نام لکھنا ہوگا ؟ (۴) اگر اپنا نام والد کی جگہ نہ لکھا تو سوسائٹی میں وہ کیسے زندہ رہے گا ؟کیوں کہ اسکول ایڈمیشن میں فارم بی مانگتے ہیں ، کیا جائے ؟ (۵) اگر اپنا نام والد کی جگہ لکھوں ، اللہ کی پکڑ میں تو نہیں آؤں گا ؟ (۶) بہت پریشان ہوں ، خدارا ، فیصلہ کرنے میں میری مدد کریں ۔ بچہ گود لوں یا نہیں؟ایسا نہ ہو کہ اللہ کی گرفت میں آجاؤں؟

    جواب نمبر: 63522

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 540-527/N=6/1437 (۱):تربیت ،پرورش اور کفالت وغیرہ کے لیے کسی دوسرے کے بچے کو گود لینا جائز ہے،لیکن گود لیا ہوا بچہ مذہب اسلام میں کسی بھی حکم میں حقیقی اولاد کا درجہ نہیں رکھتا؛ اس لیے گود لینے والے کا اس کے نام کے ساتھ بحیثیت باپ اپنا نام لگانا،وراثت میں اس کا حق دار ہونا اور بالغ یا قریب البلوغ ہونے کے بعد مرد گود لینے والے مرد یا عورت کا اس سے پردہ شرعی نہ کرنا (جب کہ اس بچہ یا بچی سے گود لینے والے مرد یا عورت کے لیے حرمت کا کوئی رشتہ نہ ہو)وغیرہ درست نہ ہوگا۔زمانہ جاہلیت میں گود لینے کی ایک حیثیت تھی اور کسی دوسرے کے بچے کو گود لینے سے یا اسے اپنا بیٹا قرار دینے سے وہ حقیقی اولاد کے حکم میں ہوجاتا تھا، گود لینے والا اس کے ساتھ مکمل طور پر حقیقی اولاد جیسا معاملہ کرتا تھا، لیکن جب اسلام آیا تو اس نے اسے باطل وبے بنیاد قرار دیا اور فرمایا:ذلکم قولکم بأفواھکم(سورہ احزاب،آیت:۴)،یعنی: یہ صرف تمہارے منھ کی باتیں ہیں ،حقیقت میں ان سے کوئی رشتہ وغیرہ ثابت نہیں ہوتا، اور بعض ملکوں میں اس کو قانون کی حیثیت دیدی گئی ہے جو مذہب اسلام کی رو سے درست نہیں؛ اس لیے مسلمانوں کے لیے جائز نہیں کہ گود لینے والے بچے کو احکام میں حقیقی اولاد کا درجہ دیں اور اس کے ساتھ حقیقی اولاد کا معاملہ کریں؛ بلکہ اس کی تربیت وپرورش محض گود لیے ہوئے بچہ کی حیثیت ہی سے ہونی چاہئے۔ (۲):جائز ہے؛ بلکہ اگر مقصد ایک انسانی جان کی حفاظت اور اس کی دینی تربیت وپرورش کی جائے تو یہ بہت بڑا کار خیر اور عظیم اجر وثواب کا باعث ہوگا،البتہ وہ کسی بھی حکم میں حقیقی اولاد کے درجہ میں نہ ہوگا ۔ (۳):جب وہ بچہ ناجائز ہے تو ولدیت کے خانہ میں کچھ نہ لکھا جائے،البتہ سرپرست (گارجین)کے خانہ میں یا ولدیت کا خانہ سرپرست کے خانہ میں تبدیل کراکے اس میں گود لینے والا اپنا نام درج کراسکتا ہے ۔ (۴):ناجائزبچہ یا گود لیے ہوئے کسی بھی بچہ کی ولدیت میں اپنا نام ڈالنا ہرگز جائز نہیں ،شریعت اسلام میں حرام ہے اور حدیث پاک میں اس پر وعید وارد ہوئی ہے، البتہ اگر پرورش اور کفالت کرنے والا اس پرست کی حیثیت سے اس کے ساتھ اپنا نام لگائے، اور ولدیت کے خانے میں کچھ نہ لکھے یا ولدیت کا خانہ سرپرست کے خانہ میں تبدیل کراکے اس میں اپنا نام لکھے تویہ درست ہے(جیسا کہ اوپر بھی لکھا گیا)، اور سوسائٹی میں ننگ وعار سے بچنے کے لیے اتنا کرسکتے ہیں کہ اس بچے کے ناجائز ہونے کی تشہیر بھی نہ کی جائے اور گود لینے والا اسے اپنی طرف منسوب بھی نہ کرے ،اور اس کے باوجود جو لوگوں میں تھوڑا موڑا ذکر رہے تو اس طرف توجہ دینے کی ضرورت نہیں اور اسے بہت زیادہ اہمیت نہ دی جائے ،اور اگر یہ سب مشکل ہو تو آگے نمبر ۶ کا جواب ملاحظہ فرمائیں، قال اللہ تعالی:ادعوھم لآبائھم ھو أقسط عند اللہ الآیة(سورہ احزاب ، آیت:۵)،وقال النبي صلی اللہ علیہ وسلم علیہ وسلم:من ادعی إلی غیر أبیہ فعلیہ لعنة اللہ والملائکة والناس أجمعین، لا یقبل منہ صرف ولاعدل (مشکوة شریف ص ۲۳۹، بحوالہ: صحیحین )، وقال في روح المعاني (۲۱: ۲۲۶،ط:مکتبة إمدادیة، ملتان،باکستان):ویعلم من الآیة أنہ لا یجوز انتساب شخص إلی غیر أبیہ وعد ذلک بعضھم من الکبائر اھ۔ (۵): جی! نہیں، گناہ ہوگا اور آخرت میں پکڑ ہوسکتی ہے۔ (۶):شرعی حدود کی رعایت کے ساتھ بچہ گود لے سکتے ہیں،اور اگر شرعی حدود کی رعایت مشکل ہو تو کوئی بچہ گود نہ لیں،بچہ گود لے کر احکام شرع کی رعایت نہ کرنا اور اخروی گرفت کے اسباپ پیدا کرنا عقل مندی کا کام نہیں ہے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند