• متفرقات >> دیگر

    سوال نمبر: 62643

    عنوان: حمل ساقط ہونے کے سلسلے میں ایک فقہی عبارت کے سلسلے میں؟

    سوال: حمل ساقط ہونے کے بعد استبانةِ خلق کا وجود یا عدم قطعی طور پر معلوم ہونے کی صورت میں تو شرعی حکم فقہائے کرام کی عبارات میں صراحةً مذکور ہے ، لیکن بعض صورتوں میں استبانةِ خلق کا وجود یا عدم قطعی طور پر ظاہر نہیں ہوتا ، نہ اس کا معلوم کرنا ممکن ہوتا ہے ۔ چنانچہ اس صورت کی طرف فقہاء نے لَا یَدْرِی أَمُسْتَبِینٌ ہُوَ أَمْ لَا؟ بِأَنْ أَسْقَطَتْ فِی الْمَخْرَجِ سے اشارہ کیا ہے ، نیز آج کل ایک جدید صورت یہ بھی ہے کہ مشین کے ذریعے اندر ہی صفائی کی جاتی ہے جس میں حمل کے استبانةِ خلق کے وجود یا عدم کا کچھ پتہ نہیں چل سکتا ۔ مذکورہ صورت کا حکم شرعی ذکر کرتے ہوئے اکثر عبارات میں پیمانہ و معیار چار مہینوں کو قرار دیا گیا ہے ، یعنی اگر ایامِ حمل چار مہینوں سے کم ہوں تو سِقط غیر مستبین الخلق شمار کیا جائے گا ، ورنہ مستبین الخلق ۔ لیکن اس پیمانہ پر علّامہ شامی نے صاحبِ بحر کے حوالے سے ایک قوی اشکال بھی ذکر کیا ہے أَقُولُ: لَکِنْ یُشْکِلُ عَلَی ذَلِکَ قَوْلُ الْبَحْرِ: إنَّ الْمُشَاہَدَ ظُہُورُ خَلْقِہِ قَبْلَ ہَذِہِ الْمُدَّةِ، ۔ مفتی بہ قول ؟

    جواب نمبر: 62643

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 224-471/Sn=6/1437 صاحب بحر نے جو اشکال کیا ہے وہ وقیع ہے، علامہ شامی رحمہ اللہ نے بھی اس کی تصدیق کی ہے، اور اسے بعض صحیح احادیث کے مطابق قرار دیا جن میں کہا گیا کہ جب ”نطفہ“ پر بیالیس راتیں گزرجاتی ہیں تو اللہ تعالیٰ ایک فرشتہ بھیجتا ہے جو اس میں شکل بناتا ہے، اس کے کان، آنکھ اور کھال بناتا ہے، نیز علامہ شامی رحمہ اللہ نے فرمایا اطباء کی بھی یہی تحقیق ہے کہ چار مہینے سے پہلے ہی اعضاء بننے لگتے ہیں۔ شامی میں ہے: أقول : لکن یشکل علی ذلک قول البحر: إن المشاہد ظہور خلقہ قبل ہذہ المدة وہو موافق لما في بعض روایات الصحیح، إذا مر بالنطفة ثنتان وأربعون لیلة بعث اللہ إلیہا ملکا فصوّرہا وخلق سمعہا وبصرہا وجلدہا، وأیضا ہو موافق لما ذکرہ الأطباء إلخ (۱/ ۵۰۰، ط: زکریا) امداد الفتاوی میں بھی حضرت اقدس تھانوی رحمہ اللہ نے چار مہینے سے پہلے ساقط نہ ہونے حمل کے بعد آنے والے خون کو نفاس قرار دیا (دیکھیں: امداد الفتاوی: ۱/ ۱۰۱، سوال: ۷۶، ۷۷، ۷۸) ؛ اس لیے یہی قولِ راجح اور مفتی بہ ہوگا کہ اب استبانة خلق (اعضاء کا ظہور) کے لیے حمل پر چار مہینے گزرنے سے پہلے اگر کسی کا حمل ساقط ہو اور اس کے بعض اعضاء بن جائیں تو اس کے بعد آنے والا خون نفاس شمار ہوگا، تتمہ احسن الفتاوی (۱۰/ ۱۷۴، ط: زکریا) میں بھی اسی پر فتوی دیا گیا ہے، آپ نے مشین کے ذریعے صفائی کی صورت میں ا ستبانہٴ خلق کے پتہ نہ چلنے کی جو بات تحریر فرمائی ہے، وہ صحیح نہیں معلوم ہوتی ہے؛ اس لیے کہ آج کل (USG)الٹراساوٴنڈ سونوگرافی کی مدد سے اس کا پتہ لگایا جاسکتا ہے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند