متفرقات >> دیگر
سوال نمبر: 62643
جواب نمبر: 62643
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 224-471/Sn=6/1437 صاحب بحر نے جو اشکال کیا ہے وہ وقیع ہے، علامہ شامی رحمہ اللہ نے بھی اس کی تصدیق کی ہے، اور اسے بعض صحیح احادیث کے مطابق قرار دیا جن میں کہا گیا کہ جب ”نطفہ“ پر بیالیس راتیں گزرجاتی ہیں تو اللہ تعالیٰ ایک فرشتہ بھیجتا ہے جو اس میں شکل بناتا ہے، اس کے کان، آنکھ اور کھال بناتا ہے، نیز علامہ شامی رحمہ اللہ نے فرمایا اطباء کی بھی یہی تحقیق ہے کہ چار مہینے سے پہلے ہی اعضاء بننے لگتے ہیں۔ شامی میں ہے: أقول : لکن یشکل علی ذلک قول البحر: إن المشاہد ظہور خلقہ قبل ہذہ المدة وہو موافق لما في بعض روایات الصحیح، إذا مر بالنطفة ثنتان وأربعون لیلة بعث اللہ إلیہا ملکا فصوّرہا وخلق سمعہا وبصرہا وجلدہا، وأیضا ہو موافق لما ذکرہ الأطباء إلخ (۱/ ۵۰۰، ط: زکریا) امداد الفتاوی میں بھی حضرت اقدس تھانوی رحمہ اللہ نے چار مہینے سے پہلے ساقط نہ ہونے حمل کے بعد آنے والے خون کو نفاس قرار دیا (دیکھیں: امداد الفتاوی: ۱/ ۱۰۱، سوال: ۷۶، ۷۷، ۷۸) ؛ اس لیے یہی قولِ راجح اور مفتی بہ ہوگا کہ اب استبانة خلق (اعضاء کا ظہور) کے لیے حمل پر چار مہینے گزرنے سے پہلے اگر کسی کا حمل ساقط ہو اور اس کے بعض اعضاء بن جائیں تو اس کے بعد آنے والا خون نفاس شمار ہوگا، تتمہ احسن الفتاوی (۱۰/ ۱۷۴، ط: زکریا) میں بھی اسی پر فتوی دیا گیا ہے، آپ نے مشین کے ذریعے صفائی کی صورت میں ا ستبانہٴ خلق کے پتہ نہ چلنے کی جو بات تحریر فرمائی ہے، وہ صحیح نہیں معلوم ہوتی ہے؛ اس لیے کہ آج کل (USG)الٹراساوٴنڈ سونوگرافی کی مدد سے اس کا پتہ لگایا جاسکتا ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند