• متفرقات >> دیگر

    سوال نمبر: 603167

    عنوان:

    گھر كے افراد سمجھانے بجھانے كے باوجود عمل نہ كریں تو كیا كرنا چاہیے؟

    سوال: کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام، مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ ایک شخص گھر کے افرادسے اس کے دین پر عمل نہ کرنے اور خلا ف شریعت امور بجالا لانے اور اس پر مصر رہنے کی وجہ سے گفتگو اور بات چیت بند کئے ہوا ہے اور اب تقریباسات آٹھ مہینہ ہوچکے ہیں، تو عرض یہ ہے کہ یہ شخص اس حدیث کے رو سے جس حدیث کے اندربیان کیا گیا کہ تین دن سے زیادہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان سے بات چیت اور گفتگو بند نہ کرے ، گنہگار ہوگا یا نہیں نیز یہ شخص کہتا ہے کہ جناب محمد الرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی دینی معاملے کی وجہ سے ازواج مطہرات سے ایک مہینہ بات چیت نہیں کیا حضرت عائشہ نے اپنے بھانجے اور عمر نے اپنے بیٹے بلال سے ایک مہینہ بات نہیں کیا اور پورے مدینہ والے پچاس یوم تک تین صحابی سے بات نہیں کیا ان کے ایک دینی امر (غزوہ میں شریک نہ ہونا) کے نہ بجالا نے کی وجہ سے ، تو عر ض یہ ہے کہ اس سے استدلا ل درست ہے یا نہیں اخیر میں یہ بھی بتلائیں کہ دین کی وجہ سے گفتگو اور بات چیت بند کرنا درست ہے یا نہیں؟ گفتگو بند کرنا صحیح ہے یا نہیں تو کیوں ؟
    معتبر کتابوں کے حوالے سے محقق و مدلل جواب ارسال کریں ۔

    جواب نمبر: 603167

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:522-93T/N=8/1442

     (۱ - ۳): اگر کسی کے افراد خانہ، کہنے سننے اور سمجھانے کے باوجود دین پر عمل نہ کرتے ہوں،خلاف شرع کام کرتے ہوں اور اس پر اصرار بھی کرتے ہوں تو اُسے چاہیے کہ افراد خانہ کو نرمی ومحبت اور حکمت عملی کے ساتھ دین پر عمل کرنے اور خلاف شرع کاموں سے باز رہنے کی بار بار نصیحت وتاکید کرتا رہے اور گاہے گاہے ترغیب وترہیب کی باتیں بھی سناتا رہے، إن شاء اللّٰہ نرمی ومحبت اور حکمت عملی کے ساتھ یہ مسلسل محنت مفید وکار گر ہوگی۔ اور اگر گھر میں اکابر کی کتابوں میں سے کسی کتاب کی تعلیم کا نظام بنایا جائے تو یہ مزید موٴثر اورمفید ثابت ہوگا۔ اور گاہے گاہے گھر میں علمائے کرام اور بزرگان دین کو بھی لاتا رہے اور وہ پردے کے ساتھ اہل خانہ کو دین کی باتیں سنادیا کریں، آج کل چند بارکوشش کرکے ناامید ہوجانا اور پھر اہل خانہ سے بات چیت وغیرہ بند کردینا مناسب نہیں؛ کیوں کہ لوگوں میں دینی تعلیم وتربیت نہ ہونے کی بنا پر عام غفلت اور بے دینی کا مزاج ہے؛ البتہ اگر کسی نے یہ سب کوششیں کرلی ہوں، پھر بھی اہل خانہ کسی طرح باز آنے کے لیے تیار نہ ہوں اور وہ سب مل کر اسے بھی اپنے رنگ میں رنگنا چاہتے ہوں یا وہ شخص اہل خانہ پر اس قدر با اثر ہو کہ اس کا بات چیت وغیرہ بند کردینا اہل خانہ پر گراں اور بھاری ہو اور وہ اسے برداشت نہ کرکے راہ راست پر آسکتے ہوں تو ایسی صورت میں اظہار ناراضگی اور اصلاح وغیرہ کی غرض سے بات چیت وغیرہ بند کردینا بلا شبہ جائز؛ بلکہ بعض صورتوں میں ضروری ہے اور اس باب میں سوال میں ذکر کردہ واقعات سے استدلال درست ہے۔

    عن أبي أیوب الأنصاري قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: لا یحل للرجل أن یھجر أخاہ فوق ثلاث یلتقیان فیعرض ھذا ویعرض ھذا، وخیرھما الذي یبدأ بالسلام، متفق علیہ (مشکاة المصابیح، کتاب الآداب، باب ما ینھی عنہ من التھاجر والتقاطع واتباع العورات، الفصل الأول، ص ۴۲۷، ط: المکتبة الأشرفیة دیوبند)

    قال الخطابي:رخص للمسلم أن یغضب علی أخیہ ثلاث لیال لقلتہ ولا یجوز فوقھا إلا إذا کان في حق من حقوق اللہ تعالی فیجوز فوق ذلک…وفی النھایة: یرید بہ ضد الوصل یعنی: في ما یکون بین المسلمین من عتب ومواجدة أو تقصیر یقع في حقوق العشرة والصحبة دون ما کان من ذلک في جانب الدین فإن ھجرة أھل الأھواء والبدع واجبة علی مر الأوقات ما لم یظھر منہ التوبة والرجوع إلی الحق؛ فإنہ صلی اللہ علیہ وسلم لما خاف علی کعب بن مالک وأصحابہ النفاق حین تخلفوا عن غزوة تبوک أمر بھجرانھم خمسین یوما وھجرت عائشة ابن الزبیر مدة وھجر جماعة من الصحابة جماعة منھم وماتوا متھاجرین ولعل أحد الأمرین منسوخ بالآخر(مرقاة المفاتیح، کتاب الآداب، باب ما ینھی عنہ من التھاجر والتقاطع واتباع العورات،۹:۲۳۰،۲۳۱، ط:دار الکتب العلمیة بیروت لبنان)۔

    قال ابن عبد البر: وأجمع العلماء علی أن من خاف من مکالمة أحد وصلتہ ما یفسد علیہ دینہ أو یدخل علیہ مضرة في دنیاہ أنہ یجوز لہ مجانبتہ وبعدہ، ورب صرم جمیل خیر من مخالطة موٴذیة (تنویر الحوالک شرح علی موطأ مالک، کتاب الجامع، ماجاء في المھاجرة، ۳: ۹۹، ط: مطبعة دار إحیاء الکتب العربیة بمصر)، ونقلہ عنہ في مرقاة المفاتیح (مرقاة المفاتیح، کتاب الآداب، باب ما ینھی عنہ من التھاجر والتقاطع واتباع العورات،۹: ۲۳۰، ط:دار الکتب العلمیة بیروت لبنان) ۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند