• معاملات >> دیگر معاملات

    سوال نمبر: 606789

    عنوان:

    گاوَں کی کمیٹی میں جمع رقم مسجد میں لگانا

    سوال:

    کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسائل ذیل کے بارے میں: ہمارے یہاں گاوَ ں کی کمیٹی ہے ۔ اس کے افراد نے آپسی مشورہ سے یہ طے کیا کہ ہم لوگوں کو آپس میں فنڈنگ کرنی ہے تاکہ مستقبل میں مسجد کی تعمیر کی ضرورت پڑی تو اس رقم کو ہم لوگ استعمال کریں گے ۔ چنانچہ اس کے لئے یہ طے کیا گیا کہ: 1) ہماری کمیٹی کے افراد جب اپنے بیٹوں کی شادی کریں گے تو کمیٹی میں ایک متعینہ رقم جمع کریں گے ۔ 2) جو افراد ولیمہ کی دعوت نہیں کریں گے وہ ولیمہ کے بدلہ کمیٹی میں ایک متعینہ رقم جمع کریں گے ۔ 3) جولوگ یہاں سے لڑکی نکاح کر لے جائیں گے ان لڑکے والوں سے ایک متعینہ رقم کمیٹی وصول کرے گی۔ ان باتوں پر سب کی رضامندی ہوئی اوردرج بالا تینوں مد میں رقم جمع ہونے لگی۔ اب کمیٹی کے پاس کچھ رقم جمع ہے اور کمیٹی والوں نے ایک نئی مسجد کی تعمیر کا ارادہ کیا ہے جس کے لئے عملی اقدام بھی کیا جا چکا ہے ۔ سوال یہ ہے کہ کمیٹی کے پاس جمع شدہ کس رقم کو تعمیر مسجد میں استعمال کر سکتے ہیں؟ نیز یہ کہ مسجد کے لئے بیت الخلا اور وضوخانہ تعمیر مسجد کے زمرہ میں آئے گا یا خارج رفاہ عام میں شمار ہوگا؟ اگر تعمیر مسجد میں استعمال نہیں کرسکتے تو اس رقم کو کس کس مصرف میں لایا جائے ؟

    برائے کرم تشفی بخش جواب سے مطلع فرمائیں۔

    جواب نمبر: 606789

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:229-58T/sd=3/1443

     صورت مسئولہ میں گاوٴں کی کمیٹی نے چندے کی جو شکل اختیار کی ہے ، وہ ایک جبری اور زور زبردستی کی شکل ہے ، چندہ میں کوئی رقم کسی پر لازم کرنا جائز نہیں، جو رقم جمع ہوچکی ہے ، اب اس کا حکم یہ ہے کہ چندہ دہندگان کے درمیان اعلان کرادیا جائے کہ اگر کسی نے جبرا رقم دی تھی، وہ اپنی رقم واپس لے سکتا ہے ، پس جو لوگ خوشی اور رضامندی سے رقم مسجد میں صرف کرنے کی اجازت دیدیں، ان کی رقم مصالح مسجد( تعمیر مسجد، وضوء خانہ، بیت الخلاء وغیرہ ) میں صرف کی جاسکتی ہے اور آئندہ کے لیے چندہ کی جبر ی شکل بنانے سے احتراز لازم ہے ۔

    عن أبی حرة الرقاشی عن عمہ قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: ألا تظلموا ألا لا یحل مال امرء إلا بطیب نفس منہ . رواہ البیہقی فی شعب الإیمان والدارقطنی فی المجتبی۔ قال الملا علی القاری : (" لا یحل مال امرء ") أی: مسلم أو ذمی (" إلا بطیب نفس ") أی: بأمر أو رضا منہ.۔ ( مرقاة المفاتیح مع مشکاة المصابیح، رقم : ۲۹۴۶)لایجوز لأحد أن یأخذ مال أحد بلا سبب شرعی۔ (قواعد الفقہ، رقم ۲۶۹، اشرفیہ، دیوبند)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند