• معاملات >> دیگر معاملات

    سوال نمبر: 161242

    عنوان: مشترك جانور كسی ایك شریك كو پرورش كے لیے دینا؟

    سوال: ہم نے کچھ جانور خرید کر کسی کو دیدیے ، اور اس سے رقم نہ لی یا کچھ رقم لے لی اور اس سے کہا کہ اس کو کھلاو پلاو اور بیچ دینا..منافع آدھا آدھا کر لیں گے .ایسا کرنا کیسا ہے ؟ نمبر2 .اگر ہم نے جانور خریدا اور دوسرے سے کچھ پیسے لے کر شراکت داری کر لی اور اس سے کہا کہ اس کی خدمت کرو 2 ،3سال گزر کے بعد اس کے دو بچے ہوئے ،ہمیں پیسوں کی ضرورت تھی ہم نے کہا کہ شراکت داری ختم کرتے ہیں ہم نے دو بچے خود لے لیے اور وہ جانور اسے دے دیا، ایسا کرنا کیساہے ؟

    جواب نمبر: 161242

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:882-769/D=9/1439

    (۱) (الف) جانور کسی کو نصف حصہ بٹائی پر دینا جائز نہیں مثلاً جانور پورا زید کا ہواور وہ خالد کو دیدے کہ اس کے چارہ پانی کا بند وبست کرو اپنے پاس سے کھلاوٴ پرورش کرو پھر جو بچے ہوں گے وہ آدھا آدھا بانٹ لیں گے اور اصل جانور میں بھی دونوں آدھے کے حصے دار ہوجائیں گے یہ صورت جائز نہیں قال في العالمگیری دفع بقرة إلی رجل علی أن یعلفہا وما یکون من اللبن والسمن بینہما أنصافا فالإجارة فاسدة وعلی صاحب البقرة للرجل أجر قیامہ وقیمة علفہ ․․․ الخ (ج۴ص۴۸۱، عالمگیری، مکتبہ اتحاد)

    (ب) ہاں اگر خالد نے جانور کی آدھی قیمت دے کر شرکت کی ہو تو پرورش کرنے کے بعد منافع میں زید اور خالد آدھے آدھے کے شریک ہوجائیں گے اور خالد کو حق ہوگا کہ جو چارہ مول لے کر کھلایا ہے اس کی آدھی قیمت زید سے وصول کرلے۔ والحیلة فی جوازہ أن یبیع نصف البقرة منہ بثمن ویبرء ہ عنہ ثم یأمر باتخاذ اللبن والمصل فیکون بینہما الخ (ج۴ص۴۸۱عالمگیری، اتحاد)

    (۲) شراکت داری کرنے کی صورت جائز ہے اور دونوں اصل جانور اور اس کے منافع میں بقدر راس المال کے حصے دار ہوں گے چنانچہ اگر آپ نے اپنے حصے کی رقم کے بدلے بچے لے لیے اور اصل جانور دوسرے حصے دار کو دیدیا تو یہ صورت جائز ہے کما مر۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند