• معاملات >> دیگر معاملات

    سوال نمبر: 171628

    عنوان: گروی پر مکان كے لین دین سے متعلق

    سوال: کیا فرماتے ہیں علماء دین و مفتیان کرام مسئلہ زیل کے بارے میں۔ زید نے زاہد ( مکان مالک) سے گروی پر مکان لے کر شاکر کو کرائے پر دے دیا بعد میں پتہ چلا کہ گروی پر لینا دینا جائز نہیں ہے ، اب شاکر ( کرائے دار ) نے جو کرایہ دیا ہے وہ زید کو واپس کرنا ہے، یا زاہد کو واپس کرنا ہے، یا شاکر کو واپس کرنا ہے۔ لہذا اس مسئلہ کا حل کیا ہوگا۔ برائے مہربانی تفصیل سے جواب مرحمت فرمائیں۔

    جواب نمبر: 171628

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:1334-183/L=1/1441

    اگر سوال کا حاصل یہ ہے کہ زید نے زاہد سے قرض وغیرہ لیا ہے اور اس کے بدلے زید سے مکان گروی رکھا ہے تو یہ مکان مرہون(گروی ) ہے اور زید مرتہن ،اور مرتہن کے لیے رہن سے نفع اٹھانا جائز نہیں نہ ہی شئی مرہون کو کرایہ پر دینا درست ہے ؛ شاکر کوچاہیے کہ مکان زید کو واپس کردے اور زید پر ضروری ہے کہ توبہ واستغفار کرے اور کرایہ کی شکل میں جو رقم حاصل ہوئی ہو اس کا صدقہ کردے یا مالکِ مکان کو واپس کردے ۔واضح رہے کہ کرایہ پر دینے کی صورت میں جو تفصیل ہے وہ اسی صورت میں جبکہ زاہد (مالک مکان) کی طرف سے خود یا کسی اور کو کرایہ پر دینے کی اجازت نہ ہو اور اگر زید نے زاہد کی اجازت سے مکان کرایہ پر دیا تھا تو ایسی صورت میں رہن باطل ہوجائے گا اور اجارہ کا مستحق راہن (زید) ہوگا اس صورت میں شاکر کو مکان واپس کرنے کا بھی حکم نہ ہوگا ،اور یہی حکم اس صورت میں ہے جبکہ بعد میں مالک مکان سے اجارہ کا معاملہ کرلیا جائے ۔

    قال فی المنح: وعن عبد اللہ بن محمد بن أسلم السمرقندی وکان من کبار علماء سمرقند أنہ لا یحل لہ أن ینتفع بشیء منہ بوجہ من الوجوہ وإن أذن لہ الراہن، لأنہ أذن لہ فی الربا لأنہ یستوفی دینہ کاملا فتبقی لہ المنفعة فضلا فیکون ربا، وہذا أمر عظیم.(رد المحتار۱۰/ ۸۳،ط:زکریا دیوبند) وَإِنْ أَجَّرَہُ الْمُرْتَہِنُ مِنْ أَجْنَبِیٍّ بِغَیْرِ إذْنِ الرَّاہِنِ لَا یَبْطُلُ الرَّہْنُ، وَلِلْمُرْتَہِنِ أَنْ یُعِیدَہُ فِی الرَّہْنِ، وَکَذَا لَوْ أَجَّرَہُ الرَّاہِنُ بِغَیْرِ إذْنِ الْمُرْتَہِنِ کَانَتْ الْإِجَارَةُ بَاطِلَةً، وَلَا یَبْطُلُ الرَّہْنُ وَکَانَ لِلْمُرْتَہِنِ أَنْ یُعِیدَہُ فِی الرَّہْنِ، وَإِنْ أَجَازَا جَمِیعًا خَرَجَ مِنْ الرَّہْنِ، وَالْأُجْرَةُ لِلرَّاہِنِ مَتَی مَا حَصَلَ الْإِذْنُ مِنْہُ، وَإِلَّا فَہِیَ لِلَّذِی أَجَّرَہُ وَیَتَصَدَّقُ بِہَا مِنْ قَاضِی خَانْ.(مجمع الضمانات ص: 103،الْفَصْلُ الثَّالِثُ فِیمَا یَبْطُلُ بِہِ الرَّہْنُ) لَوْ أَجَّرَ الْمُرْتَہِنُ الرَّہْنَ مِنْ أَجْنَبِیٍّ بِلَا إجَازَةِ الرَّاہِنِ فَالْغَلَّةُ لِلْمُرْتَہِنِ، وَیَتَصَدَّقُ بِہَا عِنْدَ الْإِمَامِ وَمُحَمَّدٍ کَالْغَاصِبِ یَتَصَدَّقُ بِالْغَلَّةِ أَوْ یَرُدُّہَا عَلَی الْمَالِکِ(مجمع الضمانات ص: 109)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند