• معاشرت >> نکاح

    سوال نمبر: 55623

    عنوان: ایک شخص جس کے والد زندہ ہوں مزید بہن بھائی بھی ہوں جب اس کا نکاح ہوتاہے تو وہ اپنے والد کے مال میں سے کوئی چیز بیوی کو مہر میں دینے کا اقرار كرتا ہے حالانکہ نہ تو والد صاحب نے اس کو اس چیز کا مالک بنایا اور نہ والد سے اجازت لی ہے کہ میں آپ کی یہ چیز بیوی کو مہر میں دوں گا؟کیا اس طرح مہر مقرر کرنا صحیح ہے؟

    سوال: ایک شخص جس کے والد زندہ ہوں مزید بہن بھائی بھی ہوں جب اس کا نکاح ہوتاہے تو وہ اپنے والد کے مال میں سے کوئی چیز بیوی کو مہر میں دینے کا اقرار كرتا ہے حالانکہ نہ تو والد صاحب نے اس کو اس چیز کا مالک بنایا اور نہ والد سے اجازت لی ہے کہ میں آپ کی یہ چیز بیوی کو مہر میں دوں گا؟کیا اس طرح مہر مقرر کرنا صحیح ہے؟

    جواب نمبر: 55623

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 62-62/Sd=12/1435-U صورت مسئولہ میں مذکورہ شخص کا اپنے والد کے مال میں سے ان کی اجازت کے بغیر کسی چیز کا مہر کے طور پر مقرر کرنا فی نفسہ درست ہے، پھر اگر والد صاحب بیٹے کو وہ چیز دیدیں چاہے قیمةً یا ہبةً، تو اس کے ذمے اُس چیز کا مہر میں دینا واجب ہوگا، ورنہ اُس چیز کی قیمت واجب ہوگی، وإذا تزوَّجہا علی ہذا العبد، وہو ملک الغیر، أوعلی ہذاالدار وہي ملک الغیر فالنکاح جائزٌ والتسمیة صحیحةٌ، فبعد ذلک ینظر إن أجاز صاحب الدار أو صاحب العبد ذلک فلہا عین المسمّی، وإن لم یجز المسمّی، لا یبطل النکاح ولا التسمیة، حتی لا یجب مہر المثل وإنما تجب قیمة المسمّی، کذا في المحیط (الفتاوی الہندیة: ۱/۳۰۳، الباب السابع في المہر، ط: زکریا، دیوبند)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند