• عبادات >> جمعہ و عیدین

    سوال نمبر: 67943

    عنوان: ساری دینا کے مسلمانوں کی عید ایک ہی دن ہونی چاہئے، یہ سیاسی خیال ہے، شرعی خیال نہیں ہے

    سوال: ہم پاکستانیوں کی کونسی طاق راتیں ہیں جن میں لیلتہ القدر تلاش کریں پوری دنیا حرم سمیت جب لیلتہ القدر کی تلاش میں عبادت میں مصروف ہوتی ہے ہم سو رہے ہوتے ہیں اور جب وہ اگلے دن جفت راتوں میں آرام کر رہے ہوتے ہیں ہم جاگ رہے ہوتے ہیں۔ پوری دنیا عید منا رہی ہوتی ہے اور ہم نے شیطان کے ساتھ روزہ رکھا ہوتا ہے ۔ مانا کہ ہمارا اور سعودیہ کا دو گھنٹے کا فرق ہے لیکن اس کو دنوں تک طویل کس نے کردیا؟ پاکستان میں 28 جون ہے سعودیہ میں بھی 28 جون ہی ہے ، یہاں منگل ہے تو وہاں بھی منگل ہی ہے ، لیکن۔ یہ اسلامی کلینڈر کے ساتھ کیا مذاق ہے کہ یہاں 20 رمضان ہے اور وہاں اکیس رمضان؟ کیا یہ مقامی ہلال کمیٹی کے وجود کے قائم رکھنے کے لئے ہے جس میں مفتی عبدالقوی جیسے لوگوں کو بیشمار مراعات سے نوازا جاتا ہے ؟ اگر ہلال کمیٹی ختم ہو گئی تو یہ مراعات بھی چھن جائیں گی۔ اب آتے ہیں مسئلے کی طرف، یہ سچ ہے کہ زمین کے جغرافیائی تقسیم کچھ اس طرح سے ہے کہ ہر خطے میں ایک دن چاند کا نظر آنا مشکل ہے ، لہذا اس حکمت کے تحت شریعت کا حکم ہے کہ جس کو جہاں چاند نظر آ جائے وہ روزہ رکھ لے جس کو نظر نہ آئے وہ اگلے دن رکھ لے ۔ لیکن اگر چاند نظر نہ آنے والوں کو شہادت مل جائے کہ فلاں جگہ چاند دیکھا گیا ہے اور گواہی مصدقہ ہو تو انہیں اسے تسلیم کر لینا چاہئے ضرور بر ضرور، اپنا الگ سے چاند دیکھنے کی ضد نہیں کرنی چاہئے ۔ پہلے زمانے میں میں چاند دیکھنے کی اطلاعات دور دراز تک پہچانا ممکن نہ تھا مثلاً اگر مکہ والوں کو چاند نظر آگیا ہے اور مدینہ والوں کو نہیں آیا تو انہیں پیغام پہچانے کے لئے تیز ترین گھوڑھے پر بھی کوئی اطلاع دینے جائے تو تین دن لگ جائیں گے اور یہ اطلاع باقی ممالک میں پہچانے کے لئے تو مہینے چاہئیں اس لئے آسانی اسی میں تھی کہ ہر علاقے کے لوگ اپنے طور پر چاند دیکھ لیں لیکن آج کا دور انفارمیشن ٹیکنالوجی کا دور ہے اطلاعات کا دور ہے ، ہمیں 0 پکی شہادت مل جاتی ہے کہ حرم میں چاند نظر آگیا ہے ۔ حرم میں تراویح پڑھی جا رہی ہے ، لیکن ہم نہیں مانتے حرم میں لوگوں کو عید پڑھتے دیکھتے ہیں، لیکن ہم روزہ رکھ کے بیٹھے ہوتے ہیں، دنیا کہاں پہنچ گئی ہے اور ہم نے اسلامی کلینڈر اور رمضان کی عبادات کا مذاق بنایا ہوا ہے ؟

    جواب نمبر: 67943

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 735-735/B=10/1437 پہلے ہمیں یہ بات ذہن سے نکال دینی چاہئے کہ ساری دینا کے مسلمانوں کی عید ایک ہی دن ہونی چاہئے، یہ سیاسی خیال ہے، شرعی خیال نہیں ہے۔ دوسرا اصول یہ ذہن نشین فرمالیں کہ لِکُلِّ اَہْلِ بَلَدٍ رُوٴْیَتُہُمْ، یعنی ہر ملک والے او رہر شہر و علاقہ والے اپنے اپنے یہاں کے چاند کے حساب سے عید منانے کے مکلف ہیں۔ اب اس کے بعد شریعتِ اسلام کا صاف اور سیدھا حکم یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے صُوْمُوْا لِرُوْیَتِہ وَأفْطِرُوْا لِرُوْیَتِہ یعنی چاند دیکھ کر روزہ رکھو اور چاند دیکھ کر ہی عید مناوٴ۔ اس کے بعد ارشاد نبوی ہے فَاِنْ عُمَّ عَلَیْکُمُ الْہِلَال فَاکْمِلُوْا ثَلَاثِیْنَ․ یعنی اگر بدلی یا غبار کی وجہ سے چاند نظر نہ آئے اور شرعی شہادت بھی ہمارے پاس نہیں آئی تو ہم مہینہ تیس دن کا پورا کریں۔ ہمیں شریعت نے اس کا مکلف نہیں بنایا ہے کہ ہم دوسرے شہر یا دوسرے ملک میں چاند ہونے کا پتہ لگائیں۔ آج ہمیں جو الجھنیں اور پریشانیاں لاحق ہورہی ہیں وہ ہم نے خود ٹیکنالوجی انفارمیشن کی وجہ سے مول لے رکھی ہیں، اگر چاند کے بارے میں ٹیلفون وغیرہ سے دوسری جگہ کی یعنی سعودیہ وغیرہ کی خبر نہ معلوم کریں، اور سیدھے حدیث شریف پر عمل کریں تو کوئی الجھن و پریشانی نہ ہوگی۔ اپنے یہاں کے چاند کے حساب سے رمضان کا جو آخری عشرہ ہو اس کی طاق راتوں میں یعنی ۲۱- ۲۳- ۲۵- ۲۷- ۲۹ویں کو شب قدر تلاش کرنی چاہئے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند